تبلیغ اسلام
اولیاءاللہ کی زندگی کا اصل مقصد ہی تبلیغ دین ہے کیونکہ دین اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کا حقیقی فریضہ اولیاءاللہ ہی نے ادا کیا ہے ۔اور اللہ والوں ہی کے دم قدم سے اسلام تما م دنیا میں پھیلا ہے ۔اسلام کے پھیلاﺅ میں جو کام اولیاءاللہ کے اخلاق و کردار،اور شیریں زبان نے جو کیا وہ شاہوں کی تلوار نے نہیں کیا ۔اللہ کے دوست چونکہ حق ہوتے ہیں اور ان کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی کٹھیالی میں کندن بنی ہوتی ہے ۔اس لیے ان کے قول و فعل میں بڑا اثر ہوتا ہے ۔جو بات کہتے ہیں وہ دلوں کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے لہٰذا ان کے پر اثر کلام کی بنا پر لو گ اسلام سے متاثر ہوکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتے ہیں۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ کا لاہور میں آنے کا اصل مقصد ہی لوگوں کو دین حق کی طرف دعوت دینا تھا اور اسی مقصد کی خاطر اپنے آبائی وطن غزنی کو چھوڑ کرسفر کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے بلادِ ہند میں تشریف لائے ۔آپ نے لاہور میں قیام کرتے ہی اس سعادت مند فریضے تبلیغ کا آغاز کردیا۔آپ کے پاس جو آتا اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے تر غیب دیتے ۔اسے دین اسلام کے عقائد سے آگاہ فرماتے اور اس دین کی صداقت کا اظہار کرتے اور اس کے لیے بارگاہ رب العز ت میں دعا فرماتے تاکہ اللہ اسے دولت ایمان سے مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔لوگ آتے اور اللہ کے ولی کی دعائیں لے کر چلے جاتے جس کی قسمت کاستارہ جاگ اٹھتا وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوجا تا۔
آپ کے دور میں آپ کے آنے سے پہلے یہاں اسلام کی روشنی پھیلنا شروع ہو چکی تھی ۔آپ کے تشریف لانے سے پہلے جو بزرگ یہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے چکے تھے یا دے رہے تھے ان کی کاوشوں کی وجہ سے لوگ مسلمان ہوچکے تھے مگر اس کے باوجودشہر میں ہندوﺅں کی بہت ساری اکثریت موجود تھی ۔شہر میں سورج دیوتا کا مندر اور لوکا مندر کے نام کی ہندوﺅں کی عبادت گاہیں تھیں ۔ان میں ہندو پرہتوں کی اجارہ داری تھی ۔اور یہ لوگ تبلیغ اسلام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے ۔بہر حال اللہ والوں کے سامنے دنیوی روکاوٹیں ایک نہ ایک دن منہدم ہوجاتی ہیں ۔آپ عرصہ 23 سا ل لاہورمیں رہے اور اس عرصہ کے دوران دن رات دین اسلام کی تبلیغ میں سر گرم عمل رہے ۔
آپ کے پاس آنے والے لوگوں کو آپ کی روحانیت کے باعث دینی و دنیوی فیوض و برکات حاصل ہوتے تھے ۔آپ کی دعاﺅں سے کئی مریضوں کو شفاءمل گئی ۔لوگوں کی مالی تنگی اورعسرت خوشحالی میں تبدیل ہوگئی ۔آپ کی دعاﺅں کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی اللہ نے دلی مرادیں پوری کیں ۔آپ کے پاس آنے سے غمزدہ لوگوں کے غم کا مداوا ہوتا تھا ۔پریشان حال آتے تھے ،سکون کی دولت لے کر جاتے تھے ۔غرضیکہ جو بھی جس نیت سے آتا ا للہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے آپ کی عزت افزائی کے لیے اس کا کام کر دیتا ۔اس طرح لوگوں کو جب اپنی نجی زندگی میں آپ کے باعث راحت ملتی تو وہی لوگ آپ کی روحانی برکات ،کمالات اور صداقت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے اس طرح آپ کے ۴۳سالہ عرصہ قیا م کے دوران بے شمار غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔
سوانح عمر ی حضرت علی ہجویری ؒ میں لکھا ہے کہ آپ کے قدم مبارک کی وجہ سے اہل پنجاب اور اہل لاہور کو بالخصوص بہت سے روحانی فیوض نصیب ہوئے اور سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو آپ کے اخلاق حسنہ اور کلام پر تاثیر سے اسلام کی لازوال نعمت میسر ہوئی ۔آپ کی زندگی اور آپ کے کلام اور کام نے وہ کام کیا جو تیر و تفنگ ،تنع و تبر اور توپ و بندوق سے بھی ممکن نہ تھا ،لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میںداخل ہوتے تھے اور اس مظہر نور خدا ،عارفوں کے پیر اور کاملوں کے رہنما کی توجہ کی وجہ سے تاریکی سے روشنی اور جہالت سے شائستگی ،بے علمی سے علم اور کفر سے اسلام میں آتے تھے بلکہ اس خطہ کی خوش نصیبی تھی کہ خدائے عزوجل نے آپ جیسی ہستی کو یہاں مامور فرمایا جہان نہ صرف آپ کی حیات میں لوگ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے بلکہ آپ کے وصال مبارک کے بعد بھی مرجع خلائق مزار پر ولی ،غوث ،قطب ،ابدال اور قلندر حاضر ہوتے اور اپنی روحانی منازل کی تکمیل کرتے رہے ہیں ۔آپ کی تبلیغ کے بارے میں مفتی غلام محمد سرور لاہوری نے حدیقیہ الاولیاءمیں لکھا ہے کہ حضرت سید علی ہجویریؒ نے لاہور میں آکر ہنگامہ فضلیت و مشائخییت گرم کیا ۔دن کو طالبعلموں کی تدریس اور را ت کو طالبان حق کی تلقین ہوتی ۔ہزاروں جاہل ان کے ذریعہ عالم،ہزاروں کافر مسلمان ،ہزاروں گمراہ رو بہ راہ ،ہزاروں دیوانے صاحب عقل و ہوش ،ہزاروں نا قص کامل اور ہزاروں فاسق نیکو کار بن گئے ۔تمام زمانے نے ان کی غلامی کو اپنانا فخر تصور کیا ۔اس وقت لاہور مرجع علماءوفضلا تھا ۔دور دور سے لوگ آکر فیض یاب ہوتے ۔
ایک تذکرے میں لکھا ہے کہ امیر سبکتگین کی پنجاب میں آمد سے لے کر سلطان مسعودغزنوی کے اقتدار کے خاتمے تک یہ خطہ مختلف نشیب وفراز سے دو چار ہوا۔کتنی بار یہاں مسلمان آئے اور ان کے حکمران وقتی طور پر کامیابی حاصل کر کے چلے گئے ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد پھر اہل ہندو کا زور ہو گیا اور بعض دفعہ تو نوبت یہاں تک آپہنچی گئی کہ ہندونے جوش انتقام سے مغلوب ہوکر مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا ان کی املاک لوٹ لیں ۔اور مساجد کو منہدم کر دیا ۔
ایک مورخ کے بیان کے مطابق سلطان مسعود غزنوی کے عہد اقتدار کے بعد راجے جے پال کے بیٹے اننگ پال نے لاہور پر اس زور سے حملہ کیا کہ یہاں کے صرف ایک محلے میں دو ہزار مسلمانوں کی لاشیں دفن کی گئیں ۔اور مسلمانوں کا وجود عنقا ہو گیا اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حضرت علی ہجویری ؒ کو اپنا تبلیغی مشن جا ری کرنے میں ہوش رُبا تکالیف برداشت کرنا پڑیں ۔جن سے ان کے پیشرو بزرگوں کو بہت کم دو چار ہونا پڑا ۔
کیونکہ حضر ت علی ہجویری ؒ کے زمانے میں لاہور کی فضا مسلمانو ں کے حق میں بڑی باساز گار تھی ۔اور ہنود مسلمانو ں کی شکل دیکھ کر ہی مشتعل ہو جاتے تھے ۔ان حالات میں حضرت علی ہجویری ؒ کا لاہور میں تشریف لانا اور اسلام کی تبلیغ کر نا یقینا جہاع با لسیف سے بڑا کارنامہ ہے ۔اور اس کے لیے انھیں بڑی صوبتیں اٹھانا پڑیں اور اس مشن کو سخت نا خوشگورا ماحول میں نبھا نا پڑا۔
(آفتاب ہجویر )
لاہور میں تعمیر مسجد
حضرت سید علی ہجویریؒ جب لاہور میںقیام پذیر ہوگئے تو انھوں نے جس چیز کی سب سے زیا دہ ضرورت محسوس کی وہ مسجد تھی ۔مسجد چونکہ اجتماعی عبادت اور تبلیغ اسلام کے لیے بنیا دی حیثیت رکھتی ہے۔اس لیے حضرت نے قیام کے کچھ عرصہ بعد تعمیر مسجد کی طرف توجہ دی اپنی قیام گا ہ کے پاس ہی ایک جگہ پر مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد خود اپنے دستے مبارک سے رکھا پھر اس کی تعمیر پر سارا خرچہ اپنے پاس سے کیا اور خوبی کی بات یہ ہے کہ اس مسجد کے بنتے وقت آپ نے خود مزدور وں کی طرح کام کیا اور بڑی محبت اور جذبے کے ساتھ سامان تعمیر اپنے سر اٹھایامسجد ایک بڑے کمرے پر مشتمل تھی جس پر لکڑی کی چھت ڈالی گئی۔
لاہو ر شہر میں یہ پہلی مسجد تھی جو ایک ولی اللہ کے ہاتھو ں تعمیر ہوئی اس مسجد کی تعمیر دارا شکوہ کی کتاب سفینة الاولیاءکے مطابق 431ھ میں ہوئی ۔آپ کی یہ تعمیر کردہ مسجد صدیوں تک قائم رہی ۔اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں دریائے راوی میں زبردست سیلاب آیا تو شہر میں نشیبی علاقہ کی دیگر عمارتوں کی طرح مسجد کو بھی سخت نقصان پہنچا ۔بعد ازاں چوہدر ی غلام رسول نے مسجد قدیم کی جائے محراب کو سنگ مرمر کی ایک سل کے ذریعے سے قائم رکھتے ہوئے اس مسجد کو از سر نو تعمیر کرایا ۔مورخین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر نو میں گلزار نامی ایک شخص نے بھی حصہ لیا ۔اس مسجد کی تعمیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے یہی وسیع مسجد تھی جس کی بنیاد رکھنے کا شرف حضرت داتا گنج بخش ؒ کو نصیب ہوا اور غالبا ً یہی وجہ ہے کہ اولیاءمشائخ کے تذکروں میں اس مسجد کو کعبہ پنجاب و ہند کے نا م سے یا د کیا گیا ہے ۔وہ مسجد جس کی تعمیر حضرت داتا گنج بخش ؒ کے ہاتھوںہوئی اور جہاں آپ امامت کرایا کرتے تھے ،کتنی باعظمت اور مقدس تھی ۔
درسگاہ
جو مسجد آپ نے صلوة پنجگانہ کے لیے تعمیر کی تھی ۔اس کو آپ نے درس کے لیے بھی استعمال کیا اور فارغ اوقات میں اسی مسجد میں آپ نے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا شروع کی اوریہاں آپ لوگوں کو درس بھی دیتے او ر دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کا پر چار بھی کرتے تھے ۔اس طرح شروع شروع میں بے پنا ہ لوگوں کو اپنے درس سے مستفید کیا ۔اس مسجد کے ساتھ آپ نے ایک حجرہ تعمیر کرا لیا تھا ۔تبلیغ و تدریس کے بعد آپ اسی حجر ہ میں استراحت فرماتے تھے ۔یہ مسجد اپنی جگہ سے بے نشان ہوگئی ہے البتہ اس کانشان اس رنگ میں آج بھی موجود ہے کہ وہاںپر کالے نشان کے ذریعے مسجد کی نشاندہی کر دی گئی ہے ۔
آپ نے درس وتدریس کے بارے میں خود رسالہ کشف ِ اسرار میں تحریر کیا ہے کہ جب میں ہندوستان پہنچااور نواحِ لاہور کو جنت نظیر پا یا تو یہیں بیٹھ گیا اور لڑکوں کو پڑھانا شروع کیا ۔لیکن جب مجھے معلوم ہواکہ اس طریق سے حکومت کی بُو دماغ میں پید اہو رہی ہے ، تو میں نے لوگو ں کو درس دینا چھوڑ دیااور پھر اس کا نا م نہ لیا۔
لاہور میں دو بار تشریف آوری
آپ لاہور میں دو بار تشریف لائے ۔پہلی با ر431ھ میں آئے اور یہاں 21سا ل سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد واپس اپنے مرشد کے پاس گاﺅں بیت الجن جو شام میں دمشق کے قریب واقع تھا گئے ۔اور آپ کی موجودگی میں آ پ کے مرشد کا انتقال ۳۵۴ھ میں ہوا ۔ان کے وصال کے بعد آپ دو بارہ لاہور تشریف لائے اور علم و عرفان کے دریا بہانے میں مصروف ہو گئے ۔مگر بعض اہل تحقیق نے اسے قیاس آرائی قرار دیا ہے ۔واللہ اعلم بالصواب !
No comments:
Post a Comment