سفر تبلیغ
اللہ والوں کا دستو ر ہے کہ جب ان کے مرید منازل سلوک یعنی شریعت طریقت ،معرفت اور حقیقت میں کامل ہوجاتے ہیں تو ان کے مرشد اپنے سے دور کسی علاقے میں بھیج دیتے ہیں اور تبلیغ دین کا فریضہ ان کے ذمے سونپ دیتے ہیں تاکہ ولایت کا فیض دنیا میں پھلتا رہے ۔اگر مرشدانِ کامل اس طرح نہ کریں تو صوفیاءکی تبلیغ میں جمود آجائے ۔اس لیے ہر ولی کامل نے جب یہ محسو س کیا کہ اس کا مرید منازل ولایت مکمل کر بیٹھاہے تو اس نے اسے دین کی تبلیغ کے لیے کہیں بھیج دیا کیونکہ مرید پر اس بات کا فرض عائد ہو جاتا ہے کہ مخلوق خدا کی بھلائی اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جہاں اس کا حکم دے ،سر گرم ہوجائے ۔
اسی اصول کا اطلاق حضرت سید علی ہجویری ؒ پر بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کے مرشد نے یہ بات محسوس کی کہ اب آپ حصول معر فت میں عرفان کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں ۔تو آپ نے حضرت علی ہجویری ؒ سے فرمایا کہ بیٹا !اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور کرم سے جو فیض وبرکات آپ کو عطا فرمائے ہیں ان کو فیض پہنچنے کی غرض سے آپ ہندوستان چلے جائےں اور وہاں جا کر توحید کی شمع روشن کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیں۔کیونکہ ہند میںکفر وشرک اپنے عروج پر ہے تو وہاں کی گمراہ شدہ مخلوق کو راہِ حق کی دعوت دینا ضروری ہے ۔اس غرض سے تم لاہور چلے جاﺅ اور وہاں جاکر رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دو۔کیونکہ اولیاءکرام کا یہی فرض ہے کہ راہِ حق پانے کے بعد تا دم آخر تو حید کا ڈنکا بجاتے رہیں ۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ کو جب مرشد کا یہ حکم ملاتو انھوں نے اپنے مرشد حضرت ابو الفضل ختلی ؒ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ حضور !وہاں تو آپ نے ایک اور مرید یعنی حضرت شاہ حسین کی یہ ڈیوٹی لگا رکھی ہے ۔پھر وہاں میرے جانے کی ضرورت کیاہے ؟اس کے جواب آپ کے مرشد نے فرمایا کہ اے علی !تمھارے لیے یہ بہتر ہے کہ تم تبلیغ حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے لاہور چلے جاﺅ ۔
سفر لاہور
مرشد سے لاہور جانے کا حکم ملنے کے بعد آپ ان سے رخصت ہوکر سیدھے اپنے وطن غزنی میں آئے ۔اور ہند وستان کے لیے تیاری شروع کردی ۔آپ کی تیاری تو یہ تھی کہ اللہ کے بھروسے پر اللہ کے نا م کو سر بلند کرنے لیے چل دیاجائے ۔لہٰذا آپ غزنی سے لاہور کے لیے روانہ ہوپڑے ۔اس زمانے میں غزنی سے لاہور تک کا سفر کافی دشوار گزار تھا ۔کیونکہ اس راستے میں شمالی سر حد ی علاقہ پڑتاہے اس کازیادہ حصہ پہاڑی ہے۔پہاڑی علاقے میں سفر کرنا کافی پر یشا ن کن بنتا ہے ۔اس سفر میں آپ کے ہمراہ شیخ احمد حماد سر خسی ؒ اور شیخ ابو سعید ہجویری ؒ بھی تھے ۔
پہلے اللہ کے یہ تینوں بندے انتہائی مشقت کے ساتھ پہاڑی علاقے کو عبور کرتے ہوئے پشاور آئے اور پھر وہا ں سے منزل بہ منزل لاہور پہنچے ۔راستے میں آپ کو پنجاب کے دریاﺅں کو بھی عبور کرنا پڑا ۔میری معلومات کے مطابق لاہور میںآپکی آمد کا سن ۱۳۴ھ بمطابق ۱۴۰۱ءہے ۔بعض تذکرہ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت احمد حماد سرخسی ؒ اور شیخ ابو سعید ؒ بعد میں آکر آپ سے مل گئے۔
واللہ اعلم ۔
حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کا جنازہ
بعض روایتوں میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ جس روز آپ لاہور شہر کی طرف تشریف آئے ،د ن ڈھل چکا تھا ،شام ہوئی چاہتی تھی دریائے راوی اپنی روانی کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔دریا کو عبور کروانے والے کشتی بان اپنے اس روز کے کام کو تمام کر چکے تھے ۔اس لیے آپ کو دریا ئے راوی کے کنارے ہی رات بسر کرنا پڑی ۔چونکہ اس وقت لاہور کی آبادی دریائے راوی کے مشرق ہی میں تھی اور دریا کو پار کیے بغیرشہر میں داخل ہونا نہ ممکن تھا ۔اللہ کے اس مردِ کامل نے اللہ کی یاد میں وہ رات وہیں بسر کر لی دوسرے روز آپ نے دریا عبور کیا اور شہر کی طرف آئے آپ شہر کی مشرقی جانب ہی سے گزر رہے تھے کہ آپ نے چند لوگوں کو جنازہ اُ ٹھا ہوئے دیکھا ۔آپ نے جنازہ میں شامل لوگوں سے پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے ؟لوگوں نے بتایا کہ یہ جنازہ قطب الاقطاب حضرت سید شاہ حسین زنجانی المعروف میراں حسین زنجانی ؒ کا ہے تو اس وقت آپ کو اپنے مرشد کا حکم یاد آیا کہ جب انھوں نے آپ کو لاہور جانے کا حکم دیا تھا تو آپ نے جواب دیا تھاکہ وہاں تو میرے پیر بھائی حسین زنجانی ؒ موجود ہیں تو پھر میرے جانے کی کیا ضرورت ہے ۔مگر جونہی آپ نے شاہ حسین زنجانی ؒ کے وصا ل کے بارے میں سنا تو مرشد کے حکم کی حکمت واضح ہوگئی کہ مجھے یہاں مرشد نے ولایت کے خلا کو پورا کرنے کے لیے بھیجا ہے جو حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔چنانچہ آپ جنازہ کے ہمراہ ہو لیے اورچاہ میراں آکر حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کی تد فین کے تمام امور سر انجام دیے ۔اس کے بعد پھر اپنی راہ لی
آپ کی آمد کے بارے میں ”تذکرہ داتا گنج بخشؒ “میں وارث کامل نے لکھا ہے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ نے دیکھا کہ لوگ ایک میت اُٹھائے چلے آتے ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کا جنازہ ہے ۔آپ فورً ا سمجھ گئے کہ پیر ومر شد کا مجھے لاہور بھیجنا اس غرض سے تھا کہ میں اس خلاکو پُر کروں جو حضر ت سید میراں حسین زنجانی ؒ کی وفات سے پیدا ہو گیا ہے ۔چنانچہ آپ جنازہ کے ہمراہ ہو لیے ۔نماز جنازہ پڑھی ۔میت چاہ میراں میں سپرد خاک کی گئی ۔
حضرت داتا گنج بخش431ھ میں دن ڈھلے پور ے ڈیڑھ برس کی مسافت کے بعد دریائے راوی کے کنارے پر پہنچے ۔دریاکے جس کنارے پر آپ نے نزول اجلال فرمایااس کے مشرق میں لاہور کی آبادی تھی آپ نے دریا کے کنارے لاہور کے بیرونی حصہ میں رات بسر کی ۔آرام سے نرم و گرم بستر پر لیٹے ہوئے لاہور کے باشندوں کو کیا خبر تھی کہ ان کا وہ روحانی مقتدا اسی شہر کے ایک اجاڑ گوشے میں بے آرامی سے رات گزار رہاہے جس کی ہستی پر نہ وہ بلکہ آئند ہ آنے والی نسلیں بھی فخر کریں گی ۔کون جانتا تھا کہ اس ایک رات کے صلے میں جو یہ مرد کامل اپنی آنکھوں میں کاٹ رہا ہے ،قدرت قیامت تک اس کے مزارپر راتوںکی نیندیں حرام کرنے پر مجبور کردے گی ۔یہ بات بھی کس کے علم میں تھی کہ یہ مرد خدا رات اس لیے شہر کے باہر تنہا گزار رہا تھا کہ اسے اپنے آقا کی غار حراکی زندگی کا مثالی نقشہ پیش کرنا تھا دوسرے لاہور میں ان کا دن ڈھلے پہنچنا یہ بھی ظاہر کر رہا تھا کہ لاہور کی دینی و رُ وحانی زندگی کا آفتاب ڈھل چکا ہے ۔اب نئے سرے سے اس کی رگ و پے میں زندگی کی روح پھونکی جائے گی ۔ اور اس شان سے اس کے بام ودرپر انوار و تجلیات کی بارش ہوگئی کہ لوگ چاند تاروں اور سورج کی چمک دمک کو بھول جائےں گئے صبح سویرے آ پ شہر میں داخل ہوئے ۔ان کا اعزاز یا خیر مقدم اس اجنبی شہر کے عوام و خواص تو کیا کرتے ،نسیم سحر کے جھونکوں اور اس شہر کی خاک کے ذروں نے کیا ہوگا ۔
حضرت نظام الدین اولیا ءؒکی روایت
حضرت داتا گنج بخش ؒ اپنی مرضی سے لاہور آئے یا اپنے پیشواکی اجازت اورحکم سے ۔یہ مسئلہ بھی نزاعی بنا ہوا ہے ۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے بیا ن سے یہ حقیقت واضح ہے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ کی لاہو رمیں آمدحکماً عمل میں آئی ہے فوائد الفوائد میں حضرت سلطان محبوب الٰہی کا جو ملفوظ اس طرح ارشاد کرتاہے۔
وہ یہ ہے کہ :
”شیخ حسین زنجانی ؒ وشیخ علی ہجویری ؒ ہر دو مرید یک پیر بو وند ،وآں پیر قطب عہد بودہ است ،حسین زنجانی ؒ دیر بار ساکن لہا ور بُود ۔بعد از چند گاہ پیر ایشاں خواجہ علی ہجویری ؒ را گفت کہ در لہا ور ساکن شو ۔علی ہجویری ؒ عرضداشت کرو کہ شیخ حسین زنجانی آنجا است ۔فرمودکہ تو برو ۔چوں علی ہجویریؒ بحکم اشارت در لہا ور آمد شب بود بامداداں جنازہ شیخ حسین ؒ رابیروں آور وند ۔“
(فوائد الفوائد،حصہ اول ،مجلس31)
ترجمعہ :۔”شیخ حسین زنجانی ؒ اور شیخ علی ہجویری ؒدونوں ایک پیر کے مرید تھے اور وہ پیر اپنے زمانے کے قطب تھے ۔میراں حسین زنجانی ؒ عرصہ سے لاہور میں سکونت پذیر تھے ۔کچھ عرصہ کے بعد ان کے پیر نے شیخ علی ہجویریؒ کو یہ حکم دیا کہ وہ لاہور میں قیام کریں ۔شیخ علی ہجویری ؒنے عرض کی کہ وہاں تو شیخ زنجانی ؒ موجو د ہیں پیر نے حکم دیا کہ تو جا ۔جب شیخ علی ہجویری ؒکے حکم کے بموجب لاہور پہنچے تو رات کا وقت تھا ۔صبح کو آ پ نے دیکھ کہ لو گ شیخ حسین زنجانی ؒ کا جنازہ لیے جا رہے تھے ۔“
اکثر تذکرہ نگار اس روایت کو درست نہیں مانتے مگر میر ے نزدیک باقی تما م تاریخی بیانا ت سے قابل ترجیح ہے کیو نکہ خواہ مخواہ ولی اللہ کے بیان کو جھٹلانا اچھا نہیں باقی اس کی حقیقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔میراں حسین زنجانی ؒ کے تفصیلی حالات میںنے اپنی کتا ب آفتاب زنجان میں بیان کیے ہیں ۔اگر کوئی ان کے حالات کے بارے میں جاننے کا شوق رکھتا ہو تو اسے آفتاب زنجان کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
لاہور میں قیا م
آپ نے چند روز میںلاہور شہر کی آبادی کا مکمل جائزہ لیا اس وقت کے لاہور کو چل پھر کر دیکھا۔لوگوں کی کثر ت ہندو دھرم کی پیرو کار تھی ۔آپ کے لیے یہ ماحول بالکل نیا تھا اور اجنبی بھی تھا ۔لوگ بیگانے تھے ۔کوئی آپ کو جاننے والا نہ تھا کہ لاہور میں اس آنے والے مرد حق کے فیض سے یہ کفر زدہ لاہور شمع توحید کے اُجالوں میں آجائے گا ۔اس وقت کے لاہور میں فلک بوس عمارتیں نہ تھیں ۔سیدھے سادے مکان تھے ۔آبادی بھی کثیر نہ تھی ۔آپ کی زندگی چونکہ کافی متوکلانہ اور درویشوں کی ما نند تھی جنھیں خدا واحد کے سہارے کے علاوہ کسی اور مادی ذریعے اور اسباب پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
لہٰذا آپ چند روز کے بعد لاہور شہر کے باہر غرب رویہ ایک مقام پر قیام پذیر ہو گئے ۔یہ جگہ وہی ہے جہاں آج کل آپ کا مزار اقدس ہے ۔جب آپ نے یہاں قیام فرمایا تو اس وقت یہ علاقہ بالکل بے آباد تھا ۔چونکہ اللہ کے فقیروں نے ہمیشہ ہی یا دِ الٰہی کے لیے ویرانوں ہی کوپسند کیا ہے اس لیے آپ نے بھی اسی گوشئہ تنہائی کو پسند فرمایا۔
اللہ کے ولیوں کو چونکہ نہ کوئی خوف اورنہ کوئی غم ہوتا ہے اس لیے بے آباد اور ویران جگہوں پر رہنا کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔اگر چہ آپ کے قیام کی یہ والی جگہ شہر کے قریب تو تھی مگر پر خطر تھی ۔کیونکہ دریائے راوی اس دور میں آپ کی قیام گاہ سے زیادہ دور نہ تھا ۔دریا کی مضافاتی جگہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا گردو نواح دریائی علاقہ ہونے کی وجہ سے پُر خطر حالات سے محفوظ نہ تھا ۔اس لیے اگر غور کیا جائے تو انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صرف خدائے واحد کے بھروسے پر کتنی پر خطر جگہ پر آ بیٹھے انسانی زندگی مادی وسائل او ر ضرورتو ں کی محتاج ہے لیکن اللہ کے ولی دنیا کی محتاجیوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اوراللہ اپنے ان بندو ں کی جنگلو ں اور بے آباد جگہوں پر پوری طرح خبر گیر ی رکھتاہے ۔اور انھیں کسی تکلیف کا احساس نہیں ہونے دیتا۔اس لیے اللہ کے بندے بے سروسامانی کے باوجود زندگی کے کئی کئی سا ل خدائے واحد کی مدد سے گزار لیتے ہیں ۔انھیں ایسی تنہائی میں اللہ کی محبت اور یادالٰہی کے وہ لمحات نصیب ہوتے ہیں جو دنیا داروں کو اپنی پر شکوہ رہائش گاہوں میں زندگی بھر نصیب نہیں ہوتے اے میرے دوست !اللہ والوں کی زندگی کے شب و روز بڑے ہی نرالے ہوتے ہیں رات کے پچھلے پہروں میں جبکہ دنیامحو خواب ہوتی ہے وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں وہ اپنے سجدوں میں مخلوق کی بھلائی مانگتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب اللہ والے دنیا سے پردہ کرجاتے ہیںتو اللہ والوں کے ویرانے ہی دنیا کی رونقوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment