Tuesday, December 2, 2014

تعلیم و تربیت

تعلیم و تربیت

والدین کا بچوں کی تربیت میں بڑا دخل ہے آپ کے والدین چونکہ بڑے دیندار تھے اس لیے انھیں اس بات کا بے حد شوق تھا کہ ان کا بیٹا دینی تعلیم سے آراستہ ہو ۔اور بڑا ہو کر عالم فاضل بنے ۔حضرت علی ہجویریؒ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جب کہ غزنی دنیائے اسلام کے ممتاز اور معروف علماءاورفضلاءکا گہوارہ تھا۔شہر میں کئی ایک مدرسے تھے جن میں تعلیم وتربیت کا معقول انتظام تھا۔اس لیے دور دور کے علاقوں سے طالب علم آکر غزنی میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس کے علاوہ مساجد کے دینی مدرسے بھی تھے جہاں پر طالب علم دینی علم قرآن و حدیث پڑھتے تھے۔غرضیکہ غزنی کا ماحول ایک طالب علم کے لیے بہت ہی بہتر تھا۔ہر قسم کی سہولت میسر تھی 

قرآن پاک کی تعلیم 

چار سال سے زائد عمر میں آپ نے حروف شناسی کے بعد قرآن پڑھنا شروع کیا۔آپ نے قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد یاکسی استاد سے حاصل کی۔اس کے بارے میں کتب تاریخ خاموش ہیںبہر کیف آپ کے والدین نے ابتداءہی سے اپنے لخت جگر کی پرورش وتربیت پر خاص توجہ دی۔اللہ تعالی نے آپ کو فطری طور پربہت ہی اچھا حافظہ دیا تھا یعنی آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔تھوڑے ہی عرصے میں آپ نے قرآ ن پاک ناظرہ پڑھ لیا ۔

آپ کا بچپن

آپ کے اندر بچپن ہی میں متانت اور سنجیدگی تھی ۔آپ کے گھر کا ماحول بڑاپاکیزہ اور روحانی تھا ۔آپ کے گھریلو ماحول کا اثر تھا کہ آپ بچپن ہی سے نماز کے پابند ہو گئے ۔آپ کی عادت میں نہایت درجے کی شرافت تھی اس لیے آپ نے بچپن میں عام بچوں کی طرح کھیل کود میں بالکل دلچسپی نہ لی ۔
آپ کی تعلیم وتربیت کے بارے میں ایک تذکرے میں لکھا ہے کہ جس قدسی نفس ماں کی آغوش میں آپ پروان چڑھے اس کی زبان ذکرےالٰہی میں مصروف اور دل جلوہ حق سے سر شار رہتا تھا۔اس لیے آپ نے ابتدائے عمر ہی سے بڑی محتاط اور پاکیزہ زندگی گزاری ۔عبادت کا شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا ۔نیک نفس والدین کی تربیت نے آپ کے اخلاق کو شروع ہی سے پاکیزگی کے سانچے میں ڈھال دیا تھا۔ہوش سنبھالتے ہی آپ کو تعلیم کے لیے مکتب میں بیٹھا دیا گیا ۔حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآن حکیم پڑھا۔

علم شریعت کا حصول

قرآن مجید پڑھنے کے بعد آپ نے غزنی کے مختلف مدارس سے اس دور کی مروجہ عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔پھر علم حدیث ،تفسیر ،فقہ ،منطق اور فلسفہ کی تعلیم مکمل کی ۔اس طرح جوانی کے عالم تک آپ کو علم شریعت میں پوری طرح مہارت حاصل ہو گئی ۔کیونکہ آپ کی تصانیف آپ کی علمی پختگی کابین ثبوت ہیں ۔
علمی پختگی کے لیے آپ نے اساتذہ سے استفادہ کیا ان میں شیخ ابوالعباس احمد ابن محمد اشقانی ،شیخ ابو القاسم گرگانی ،ابوالعباس احمد بن محمد قصاب ،ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف بالذاتستانی،ابو سعید فضل اللہ بن محمد ،ابو احمد المظفر بن احمدبن حمدان اور شیخ ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوزان القشیری کے نام قابل ذکر ہیں ۔مگر آپ کے سب سے پہلے استاد شیخ ابوالقاسم گرگانی ہیں ۔جن سے آپ نے درسی علوم حاصل کیے اور حصول علم میں ان سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کیا۔

طالب علمی کے دور کا ایک واقعہ 

حضرت خواجہ مستان شاہ کابلی اپنی کتاب سلطان العاشقین میں فرماتے ہیں کہ جن کا دل خداوند کریم کی طرف متوجہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔اس ضمن میں ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سید مخدوم علی ہجویری ؒ محمود غزنوی کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں اکثر دیکھے گئے ۔اس وقت آپ کی عمر با مشکل بارہ تیرہ برس کی ہو گئی ۔حصول علم کے جذبے سے سر شار یہ طالب علم تعلیم میں اتنا محو ہوتا کہ صبح سے شام ہو جاتی مگر کبھی پانی تک پیتے نہ دیکھا گیا ۔رضوان نامی سفید ریش بزرگ اس مدرسہ کے مدرس تھے اور اپنے اس خاموش طبع طالبعلم کو تکریم کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔
ایک دفعہ محمود غزنوی کاگزراس مدرسہ کی جانب ہو ا۔اور اس عظیم درسگاہ میں آگیا ۔دیگر شاگردوں کے برعکس حضرت مخدوم علی ہجویری ؒ اپنے کام میں اتنے منہک تھے کہ ان کو کوئی خبر نہ تھی ۔بزرگ رضوان نے پکارا ”دیکھو مخدوم علی !کون آیا ہے “؟اب کیا تھاایک طرف محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن راہ ِ حق کامتلاشی عجیب منظر تھا۔محمود غزنوی نے اس نو عمر طالب علم کی تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں فوارََ جھکا دیں اور مدرس سے کہا ”واللہ !یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے ۔ایسے طالب علم اس مدرسے کی زینت ہیں ۔“فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی جس کے نام سے ہندوستان کے بڑے بڑے راجے اور مہاراجے تھرآتے تھے اور جس کی تلوار سے سارا ہندوستان لرزاٹھاوہ ایک کمسن طالب علم کے آگے سر نگوں ہو گیا ۔

No comments:

Post a Comment