خصائلِ و عادات
اللہ والوں کی عادتیں بڑی بے نظیر ہوتی ہیں ان کا ظاہر اور باطن چونکہ یکساں ہوتا ہے اس لیے ان کے خصائل میں سادگی ہوتی ہے وہ فطرت کے محرم راز ہوتے ہیں اس لیے ان کی عادات اہل ِدنیا کے لیے مشعل ِراہ ہیں ۔ان کی عادتوں سے محبت اور انسانی خدمت کے چشمے پھُوٹتے ہیں ۔ان کی باتیں دکھی انسانیت کا مداواہیں ۔ان کی ادائیں اللہ کی محبت ،اور عشقِ مصطفٰے میں ڈوبی ہوتی ہیں ۔اس لیے لوگوں کے دلوں کو روشن کرتی ہیں ۔حضرت سید علی ہجویریؒ کی عادات ِمبارکہ کی مکمل تفصیل تو نہیں ملتی البتہ جو ملتا ہے وہ پیش ِخدمت ہے :
لباس
جسم ڈھانپنے کے لیے حضرت سید علی ہجویری ؒ کو کسی مخصوص صوفیاءنہ لباس کا شوق نہ تھا ۔آپ کے زمانے میں صوفیاءمخصوص قسم کا لباس پہنتے تھے جسے وہ صوف کا لباس قرار دیتے تھے تاکہ اس لباس کے پہننے سے دوسروں کو معلو م ہو کہ وہ صوفی ہیں ۔ صوفیاءکے ایسے لباس کو خرقہ یا گودڑی کہا جاتا تھا۔خرقہ یا گودڑی کو پیوند لگے ہوتے تھے ۔مگر آپ کے دور میں بعض ظاہر دار صوفیاءنے پیوند لگے کپڑوں اور خرقہ کو لوگوں میں جاہ و جمال کا ذریعہ بنا لیا تھا ۔ ایسا کر نا صو فیاءکے لئے اچھا نہ تھا اس لیے آ پ صو فیاءکا مخصو ص لباس پہننے کو بہتر تصور نہیں کرتے ۔ کیونکہ کشف ا لمحجوب میں لباسِ صوفیاءکے بارے میں آپ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ صوفی کا لباس کیسا ہو اور ا پنے لباس کا ذکرفرمایا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ اب صوفیاءنے خرقہ یعنی پشم والا لباس تر ک کر دیا ہے اس کی دجہ یہ ہے کہ یہ لباس راہِ طریقت کے لیے شرط نہیں ہے ۔اس دور میں پشم کا لباس کم پہننے کی دو وجوہا ت ہیں ۔ایک یہ کہ پشم مشکوک ہو گئی ہے اور وہ اس طرح کہ جانور چور چکاری اور لوٹ مار میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے ہیں دوسرے یہ کہ بدعتوں کی ایک جماعت نے بھی اونی لباس پہننا شروع کردیا ہے اور اہل بدعت کی مخالفت ضروری ہے چاہے اس سے خلاف سنت ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔
صو فیا ءکپڑوں میں پیوندلگانے میں تکلف برتنے لگے ہیں اس لیے لوگوں میں ان کی جاہ و منزلت بڑھ گئی ہے اور اب ہر شخص ان کی نقالی کرنے لگا ہے بظاہر خرقہ پہن لیتے ہیں مگر ان سے اعمال انتہائی نہ مناسب سر زرد ہوتے ہیں انھیں ان نام نہا د صوفیوں کی حرکت سے کہ وہ اپنے لباس اس انداز میں سینے لگے کہ کوئی اس طرح نہ سی سکے ۔اور انھوں نے باہم ایک دوسرے کے لیے یہ اپنی علا مت اور نشانی مقرر کر لی ہے اور اس حد تک اپنا شعار بنایا کہ ایک درویش کسی شیخ کی خدمت میں گیا اس نے جو خرقہ پہن رکھا تھا اس پر چوڑے بخیے لگے ہوئے تھے چنانچہ شیخ نے اسے اپنی محفل سے نکال دیا ۔اس سے مراد یہ ہے کہ صفا کی حقیقت طبیعت کی رقت اور مزاج کی لطافت ہے۔نیک دل اور صاف طبع میں کجی بھی نہیں ہوتی ۔جس طرح نہ موزوں شعر طبیعت پسند نہیں کرتی یا کوئی بھی نہ مناسب کام طبیعت کو اچھا نہیں لگتا ۔
بعض لوگوں نے لبا س کے معاملے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیا۔اللہ تعالیٰ نے اگر انھیں گدڑی عطا کی تو انھوں نے پہن لی اور اگروہ انھیں قبا سے نواز تا تو اسے زیبِ تن کر لیتے ہیں ۔اور اگر انھیں برہنہ رکھتا ہے تو وہ اس طرح گزارہ کرتے ہیں اور میں علی بن عثمان جلابی ؒ بھی اس طریقے کو پسند کرتا ہوں اور میں نے اپنے سفر میں اسی پر عمل کیاہے ۔
پھر ابو سعید ہجویریؒ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ۔اس وقت غزنی میں بھی پیر صاحب کرامت موجود ہے ۔خدا اس کو تا دیر سلامت رکھے اس کا نا م مو ¿یدہے ۔ابو حامد دوستا ن کی طرح اس کو بھی اپنے لباس پر قبضہ نہیں ہے اور نہ اختیار ہے ۔میں بھی اسی طریق کو پسند کرتا ہوں ۔یعنی اگر گدڑی مل جاتی ہے وہی پہن لےتا ہوں۔قبامل جائے تو اس سے بھی انکا ر نہیں ۔پشم کا پاجا مہ اور سفید پیراہن بھی پہن لیتا ہوں گو سفید میںدھونے کی تکلیف ضرورہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی خا ص لباس کے پابند نہیں ۔ جو مل جاتا ہے اور جو میسر آجاتا ہے وہ پہن لیا کرتے تھے ۔مگر ایسے لباس سے ہمیشہ احتراز کرتے تھے جس سے زینت پائی جاتی ہو ۔اور جو محض نمائش کے لیے ہو ۔
چنانچہ کشف المحجوب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں جن دنوں خراسان میں تھا اور مقصد خاص کے لیے پھر رہا تھا ۔میں نے بطور سنت بہت سخت کپڑے کی گودڑی پہنی ہوئی تھی ۔ایک عصا میرے ہاتھ میں تھا اور چمڑے کا لوٹا میری ظاہر ی کائنات تھی
خوراک
لباس کی طرح خوراک کے بارے میں بھی آپ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مل جاتا اسے استعما ل میں لے آتے کیونکہ انسانی زندگی میں خوراک کھا ئے بغیر کوئی اور چارہ کا ر نہیں ۔جسم خوراک ہی سے قائم رہتا ہے اس لیے ضرورت کے مطابق خوراک استعمال کرنا عین سنت بھی ہے۔ آپ خورا ک میں زیادتی کے قائل نہ تھے ۔کیونکہ آپ کا ارشا د ہے کہ مرید کے لیے بسیار خوری سب سے زیادہ نقصان دہ ہے اس لیے آپ نے بہت سیر ہوکر کھانے سے عمر بھر گریز کیا ۔
قیام لاہور کے دوران آخری عمر میں آپ کی قیام گاہ پر جب لوگوں کا آنا جانا کثرت سے ہوگیا تھا تو لنگر کا اہتمام بھی عام ہو گیا ۔ہر ایک کے لیے کھانا ایک جیسا ہوتا ۔جو پکتا اسی سے آپ بھی تناول فرما لیتے اور اپنے پاس آنے والوں کی خد مت بھی کرتے ۔اس طرح آپ کی خوراک کا سلسہ اللہ تعا لیٰ کی عطائی تھا ۔جو آگیا اسی پر قناعت کر لی اور زندگی کے شب و روز پورے ہوگئے خوراک میں دودھ ،سبزیاں ،گندم چاول ،گوشت اور دیگر ضروری اشیا ءقابل ذکر ہیں ۔
آپ کھاتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت طریقے کا بہت خیا ل رکھتے اس لیے آپ نے کشف المحجوب میں فرمایا ہے کہ کھا نا دائیں ہا تھ سے کھانا چاہیئے نظر اپنے لقمے پر رہے ۔کھانے کے دوران مکمل پیاس کے بغیر پانی نہ پیئے اور پیئے تو اتنا تھوڑاکہ جگر تر ہو جائے ۔لقمہ بڑا نہ لے ۔خوب چبا کر کھا ئے جلدی نہ کرے اس سے بد ہضمی کا اندیشہ ہے اور سنت کے بھی خلاف ہے ،کھانے سے فارغ ہوتو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ہاتھ دھوئے ۔اگر جماعت میں سے دو تین یا زیادہ آدمی خفیہ کسی دعوت میں چلے جائےں اور کچھ کھائے پیئں تو بعض مشائخ کے نزدیک یہ حرام ہے اورصحبت میں خیا نت کے مترادف ہے ۔
No comments:
Post a Comment