استخارہ کی تر غیب
حضرت سید علی ہجویری ؒ کا طریقہ کا رتھا کہ جب کوئی بڑا اہم کا م کرنے کا ارادہ کرتے تو پہلے سنت کی اتباع میں استخارہ کرتے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مددشامل حال ہو جائے لہٰذا آپ فرماتے ہیں جب میں نے کتا ب لکھنے کا ارادہ کیا تو میں نے سب سے پہلے استخارہ کیا اور استخارہ میں جب اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد ملنے کا اشارہ ہو گیا تو میں نے کتا ب لکھنے کا پختہ ارادہ کر لیا ۔
آپ فرماتے ہیں کہ استخار ہ سے مراداللہ تعالیٰ کے ان آداب کا لحاظ رکھنا ہے کہ جن کا اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کا اتباع کرنے والوں کو حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا فَاِذَاقَرَاتَ ال ±قُر ± انَ فَاس ±تَعِذ ± بِاللّٰہِ مِنَ الشَّی ±طٰنِ الرَّجِی ±مِ ۱ (کہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو )اور استعاذت (ہر معاملہ میں اللہ کی پناہ مانگنا)استخارت (اللہ سے بھلائی طلب کرنا )اور استعانت(ہر معاملہ میں اللہ کی مدد چاہنا ) ان سب سے مراد یہ ہی ہے کہ تمام امور میں اللہ تعالے ٰ سے ہی مدد طلب کی جائے ۔اپنے تمام کاموں کو اللہ ہی کے سپرد کیا جائے اور یوں طرح طرح کی مصیبتوں سے نجات حا صل کی جائے ۔
صحابہ کرام ؓ سے روایات ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہمیں قرآن کی تعلیم ارشاد فرمایا کرتے تھے اسی طرح استخارے کی بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔
پس جب انسان اس حقیت سے روشناس ہوجائے کہ کسی کام میں اس کی کامیابی اس کے ذاتی کسب اور تدبیر پر موقوف نہیںکیونکہ انسان کی بہتر ی کا علم اللہ تعالیٰ کوہی ہے اور ہر قسم کی بھلائی یا برائی تقدیر الٰہی پر منحصر ہے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی ہونے اور اس سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا اس طرح وہ نفس امارہ کی شرارتوں اور سر کشی سے ہر حالت میں محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی اصلا ح اور بہتری منزل کو حاصل کرلیتا ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ بندہ اپنے تما م کاموں میں اللہ سے استخارہ کر لیا کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اسے غلطیوں اور آفتوں سے محفوظ رکھے اور توفیق تو اللہ کی طرف سے ہی ہے ۔
نیت درست رکھنے کی تلقین
آپ عمل شروع کرنے سے پہلے نیت درست رکھنے کے قائل تھے لہٰذا اپنے ساتھی حضرت ابوسعید ہجویریؒ کو مخاطب کرکے ایک جگہ فرما تے ہیں کہ ہر کام کرنے سے پہلے اس کی نیت ضرور کرلینی چاہیئے ۔اگر کام میں کچھ خلل واقع ہو یا کام بخیرو خوبی انجام تک نہ پہنچ سکے تو اس میں انسان معذور ہے لیکن نیت اس کو کرنے یا انجام تک پہنچانے کی ہونی چاہیئے ۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کی نیت اس کے اس عمل سے بہتر ہے جو بغیر نیت کیا جائے اور اعما ل میں نیت کا بڑا دخل ہے ۔اور اس پر سچی دلیل موجود ہے کہ بندہ ایک ہی نیت سے ایک حکم میں دوسر ے حکم میں ہوجاتا ہے حالانکہ اس کے ظاہر پر اس کا کوئی اثر نمودار نہیں ہوتا ۔
مثلاً اگر کوئی شخص روز کی نیت کے بغیر کچھ دن بھوکا رہے تو اسے اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا لیکن اگر وہ روزہ کی نیت کرکے بھوکا رہے تو مقربانِ الہی میں شمار ہوجائے گا باوجود یہ کہ ظاہر ی طور پر کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا البتہ وہ وہاں سکونت کی نیت کرلے تو مقیم سمجھا جائے گا ۔اسی قسم کے اور بھی بہت سے امور ہیں کہ نیت کے بغیر ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ۔لہذ ا ہر عمل کے شروع میں نیک عمل کی نیت ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کوہی صحیح علم ہے ۔
نفسانی خواہشوں سے منہ موڑنا
حضرت سید علی ہجویریؒ فرماتے ہیںکہ میں نے دل میں پیدا ہونے والی ہر خواہش سے منہ موڑ لیا ہے ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ جس کام میں نفسانی اغراض شامل ہوجائیں اس سے بر کت اٹھ جاتی ہے اور دل راہ ِ راست سے پھر جا تا ہے ۔اس کی دو صورتیں ہیں ۔یایہ کہ اغراض پوری ہوجاتی ہیں یا نہیں ہوتیں ۔اگر یہ اغراض پوری ہو جائیں تو انسان کے لیے ہلا کت کا موجب ہے ۔کیونکہ نفس کی مراد پوری ہونا دوزخ کی کنجی ہے اوراگر یہ مراد پوری نہ ہوںتوبھی یہ شخص بار گراں اور اندرونی دباﺅ کا شکار رہے گا ۔الغرض جنت کے دروازے کی کنجی یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس کی خواہشات سے روکے ۔
ارشاد ِ خدا وندی ہے ”اور جس نے نفس کو خواہش سے روکا تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکا نہ ہے ۔“
نفسانی اغراض یہ ہیں کہ جو کام وہ کر رہا ہے اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو ۔اور نہ ہی اس سے مقصد اپنے نفس کو عذاب سے بچانا ہو۔اسی طرح نفسانی خواہشات کی کار فرمائی یہ ہیں کہ نفس کی رعونت کی کوئی حد نہ رہے اور نہ اسے کبھی اپنی کار ستانیوں سے اکتا ہٹ محسوس ہو۔
علم وفضل
حضرت سید علی ہجویر یؒ وہ مرد کامل تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے علم و فضل سے بے پناہ نوازا تھا ۔ آپ علم کا ایک بحر بے کراں تھے ۔آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علوم ظاہر ی و باطنی کی تحصیل و تکمیل میں صرف کیا تھا آخر ایک دن وہ بھی آ گیا کہ جب آپ ہر طرح سے علم و فضل پر کامل ہوگئے تو آپ کے علم کا سکہ اہل دنیا نے مانا آپکی کتا بوں سے آپ کے وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پھر آپ کے علم و فضل کی بلند پر وازی آپ کی تصنیف کردہ کتا ب کشف المحجوب سے عیا ں ہے ۔آپ کی یہ کتا ب علم و عرفان کا انمول خزانہ ہے ۔
”آفتاب ِ ہجویر “میں لکھا ہے کہ آپ کی شہر ئہ آفاق کتا ب”کشف المحجوب “معلومات کا گنجینہ ہے جس میں علم و عرفان کے موتی بکھرے پڑے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علم تاریخ پر بھی بڑا عبور رکھتے تھے ۔اس کتاب میں آ پ نے عہد رسالت ،خلفائے راشدین ۔فرماں روایانِ اسلام اور حکما ءعرب و عجم کے جو واقعات اور اقوال درج کیے ہیں ان کی صحت شک وشبہ سے بالا ہے۔ ان واقعات اقوال سے آپ نے جس رنگ میں استنباط کیے ہیں اس سے آپ کی قوتِ استد لال کا اندازہ ہوتا ہے ۔علم تصوف کے بارے میں جو نکات آپ نے بیان کیے ہیں وہ حرف َ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتاہے کہ اس علم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو۔آپ روایات اور فن اسماءالرجال کے بھی عالم تھے سیرت نگاری میں بھی آپ کو حیرت انگیز کمال حاصل تھا۔غرض اپنے علم وفضل کے لحاظ سے آپ ان یادگار زمانہ لوگوں میں سے تھے جو کبھی کبھی عرصہ عالم میں آتے ہیں اور جب آتے ہیں توایک نیا عالم تخلیق کر جاتے ہیں ۔
آپ کے علم وفضل کی سر بلندی کا ثبوت آپ کی ذاتی کتب کا ذخیرہ بھی تھا ۔جو آپ نے جمع کر رکھا تھا اس زمانے میں کتب اکٹھی کر نا بہت مشکل کا م تھا کیونکہ کتب کی اشاعت زیادہ نہ تھی بلکہ چنداں تھی یاپرانی کتب سے اپنی ہاتھ سے کتب کی مشکل نقلیں بنالی جاتی تھیں ۔اور یہ خاصا مشکل کام تھا۔مگر آپ نے ہر قسم کی دشواری کے باوجود بھی دینی اور روحانی کتب خاصی تعداد میں جمع کیں ۔کشف المحجوب میں حضرت سلیم الراعی کے حالات لکھتے ہوئے آپ نے بصد حسرت لکھا ہے کہ اس وقت اس سے زیادہ لکھنا ممکن نہیں کیونکہ میری کتابیں غزنی میں رہ گئی ہیں ۔یعنی آپ نے کتابوں کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے تفصیل میں جانے سے معذرت کی ہے ۔کشف الحجوب ہی میں آپ نے کم و بیش بیس کتابوں کے حوالے پیش کیے ہیں تو ان باتوں سے یہ حقیقت نمایا ں ہوجاتی ہے کہ آپ کی ذاتی کتب کا ذخیرہ خاصا بڑاتھا جسے آپ اپنے ساتھ لاہورمیں نہ لاسکے۔
No comments:
Post a Comment