Monday, December 1, 2014

خداداد ذہانت عشقِ حقیقی

 خداداد ذہانت 

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے ذہانت عطا فرمائی ۔آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے آپ کی ذہانت اور علمی صلاحیت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے :
آپ فرماتے ہیں کہ غزنی میں شیخ بزرگ نامی ایک عمر رسیدہ شخص رہتے تھے انھوںنے فرمایا اے علی!تو ایک کتا ب لکھ جو تیری یاد گار رہے ۔میں نے کہا ، حضور!مجھے تو علم کا کچھ اتنا پتہ ہی نہیں ہے ۔میری عمر اس وقت ۲۱ سا ل کی تھی ۔جب انھوں نے اصرار کیا تو میں نے اسی عمر میں ہجویر کے اندر کتاب لکھ دی ۔اور ان کے سامنے پیش کی ۔انھوں نے فرمایا کہ ایک دن تم بزرگ ہوگے ۔میں نے کہا حضور !آپ کی نوازش ۔مجھے ان کی نصیحتیں یا د ہیں ۔کہا ، تجھے چاہئے کہ معشوق سے محبت کرے میںنے کہا معشوق کون ہے ؟فرمایاخدا۔وہ اس پر مہربانی فرماتا ہے ۔مجاز اختیار کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجاز حقیقت کے لیے پل ہے فقیروںسے محبت کر (کشف اسرار ) 

عشقِ حقیقی

آپ میں عشق حقیقی کے جذبات بہت زیادہ تھے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے بے پنا ہ شوق تھا ۔اس عشق کے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ ماورءالنہر میں ایک روز میں ایک حوض کے کنارے بیٹھا تھا ۔جب میںنے ہاتھ پانی میں ڈالا تو مجھے اپنا محبوب منظور نظر دیکھا ئی دیا ۔اسی دن سے مجھ کو معلوم ہوا کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔
(اس لیے ) محبوب کو اختیا ر کر اور پھر اس پرجان نثار کر اور یہ سمجھ کہ اس کی راہ میں جان قربان ہوجائے تو بہتر ہے۔اگر دیکھنا ہی ہے تو خدا کی صنعت دیکھ ۔اپنی شمع کا پروانہ بن اور پر واہ نہ کر کہ جان پر بن جائے گی تو بہتر ہو گا ۔غرور کو تن سے نکال دے 
اس لیے اے دوست !تجھے ہی چاہیئے کہ سچا عشق ہو جائے اور اپنے پیروںو مرشد کے قدموں میں جان دے ۔مرشد کے قریب رہے اس کا دیدار کرتا رہے تا کہ حقیقت اور طریقت تک رسائی ہو ۔(انشاءاللہ ) خدا کو سب سے بہتر خبر ہے ۔
میں چاہتاہی ہوں کہ گوشہ گیر رہوں اور محبوب کے چہرے کے سوائے کسی پر نظر نہ رکھوں۔
میں علی بن عثما ن جلا بی ؒ ہوں ۔مجھے عجیب و غریب باتیں معلوم ہیں ۔میں سوائے محبوب کے کسی کو پیا ر نہیں کرتا اور اس کے دیدار کے سوا مجھے اور کوئی کا م نہیں اس کے نا م کے سوامیرا کوئی ورد وظیفہ نہیں ۔میں اس کے چاند سے جادو والے چہرے کو کبھی اس کے رخساروں کو دیکھتا ہوں ،کبھی اسکی خاک راہ کو حقیقت بین آنکھ کے لیے سرمہ کرتا ہوں ۔اس کے نقش کف پا کو بدر سمجھتا ہوں اور اس کے دانتوں کی لڑی پر جان نثار کرتا ہوں ۔اس کے سرور فتار سے فکر روشن کرتا ہوں ۔رات بھر اس کے عشق کی غم خوری ہے اور دن بھر محنت و زاری ۔میں نے دل کو یوں اس پر قربان کیا کہ بالکل بدل گیا ہوں ۔کپڑے پھاڑکر بے خود ہوگیا ہوں ۔میں خطاکا ر فقیر اور گنہگار حقیر ہوں جس نے دل خدا اور اس کے رسولﷺ کی یا د میں ہار دیا ہے ۔سوائے محبت کے اسے کوئی کام نہیں ۔جو دنیا کو ناپاک جگہ سمجھتا ہے ۔اور سرائے کہتا ہے جس میں مسافر آرام کرتے ہیں جو کبھی آسمان پر ہوتا ہے کبھی زمین پر میں نے اپنے آپ کو خاک کر لیا ہے 
جب تجھے دوستی کے راز کی خبر ہوجائے اور وہ تیرے دل میں بیٹھ جائے تو اسے سنبھا ل کر رکھ اور الٹ نہ دے ۔اور اس سے بری نہ ہوجا ۔اسی میںتیرا بھلا ہے منصور حلا ج کو دیکھا کہ اس نے دوست کے راز کا ایک رخ ظاہر کیا تو سر سے گز ر گیا اور اسکی معرفت خاک میں مل گئی ۔
حضرت علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے تاج دین کو کہتے سنا کہ بھونرا پھول کے گرد خوشبو میں مست پھرا کرتا تھا ۔اس کو اس مٹی پر جہاں چنبیلی اگی ہوئی تھی تڑپتا ہوا دیکھا پوچھا ،چنبیلی کیا ہوئی ؟کہا سنا ہے جل گئی ہے ،اسے کہا گیا اے کچے !کیا عشق اسی کا نام ہے کہ تو اس کے بعد زندہ رہا اور اس کے ساتھ ہی نہ جل مرا ۔بولا یارو میں پردیس گیا تھا ۔میری عدم موجودگی میں چنبیلی برباد ہوئی ۔میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ نظر آجا ئے مگر مجھے دیکھائی نہیں دیتی ۔نا چار وہ جس جگہ اگی تھی اور جہاں اس کے نشان ہیں ۔میں ا س کی مٹی تاج سمجھ کر سر پر ڈالتا ہوں ۔
محبوب کے سواکسی اور کی با ت سننا جہالت ہے اور سچا عشق بنے ۔اے علی !خاک ہوجاتا کہ اکسیر بن جائے ۔جس شخص کا روشن شریعت پر انجا م بخیر ہوا وہی نیک آدمی ٹھہرا ۔نور ہی نور شیطان سے دور ۔
پھر کہتا ہے کہ اگر تجھے نو ر اور سرور در کار ہے تو اپنے تئیں خاک کر دے تا کہ تو نیک اولا د اور نیک بیٹا گنا جائے ۔
اے علی !تو عجیب دلبستان ،یوسف کنعان اور جا ن جہان ہے ۔تو ظاہر وباطن کا جاننے والا ہے ۔لیکن تو نے کیا پڑھا کہ تو گھبرایا ہوا ہے تونے خود سے ”دشمنوں“کو دور نہیں کیا ہے اور اپنے اوپر گناہوں کی گر د جمنے دی ہے ۔اور ”جوہر“کو خود صاف نہیں کیا ہے ۔
اے علی دل میں عمارت بنا ۔ذکر الہی کی کچی پکی اینٹوں سے عمارت بنا ورنہ ہر عمارت ڈھے جاتی ہے ۔
اے علی ! تو عقل مند ہے ، بالغ ہے ، ولی ہے ،صاحبِ تاج و تخت ہوکر فقر فقیر ی کے تخت پر آرام کرنے والا ہے ۔نیکی کا درخت لگاتا کہ اس کا پھل تجھے ملے ۔تو پیر ہے ،دلپذیر ہے ۔بادشاہ کا وزیر ہے ۔تو ( اسی کا تقا ضہ کر یہی ہے ) اپنی فقیری کو خاک میں ملا دے دلگیر ی اختیا ر کرتے ہوئے ۔
اے علی !تو بادشاہ ہے ،تو مچھلی کی طرح مت چھپ ۔تو مرد راہ اور شیر دلیر ہے تو گھا س کا تنکا نہ بن ۔دیکھو ایسے نہ ہو کے تجھے روسیاہی نصیب ہو اپنے آپ کو خاک کرو تاکہ مراد ِخدا بن جائے ۔
 اے علی !تو بلند مرتبہ سورج ہے ۔بلند آسما ن ہے بلکہ سورج رکھنے والا آسما ن ہے مگرتو خاک ہوجا تا کہ مرد پر نور کہلا ئے ۔
اے علی !تیرے پاس ہیرے موتی ہیں تو خو د کو مالک سمجھتا ہے تو صرف امانت دار ہے دیکھ تو اپنے شہر میں ذلت نہ اٹھا نا ۔
بڑھیا کی طرح حرص و لالچ نہ کر ۔خداسے موافقت کر ۔اس کے کرم پر ناز کر رازمت کھول ،نماز پابندی سے اداکرنا تو کامل عمل ہے ۔امانت کا حامل ہے تو نیک بخت ہے اور آخرت میں سختی نہیں چاہتا ۔
اے دوست !تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ان باتو ں پر عمل کر ۔
اے علی !باتیںبے کار ہیں اپنا کام کر ،عقلمندو ں سے نہیں سنا کہ تعلق توڑ واصل حق بن اور سوائے خد اکے کسی کو نہ ڈھونڈھ۔

No comments:

Post a Comment