Tuesday, December 2, 2014

کشف و کرامات

کشف و کرامات 
کرامت کا لفظ کرم سے ہے ۔اللہ تعالیٰ کے کرم سے ایسا فعل جو اس کے ولی سے سر زد ہو جس سے انسانی عقل اور قوت عاجز ہو جائے ،کرامت کہلاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ولیوں کے سامنے جب باطل قو ت آ کر ٹکر لیتی ہے تو اللہ اپنے ولیوں کو سچا کرنے کے لیے ان سے ایسی طاقت کا اظہار کرواتا ہے جس سے باطل عاجز ہوجا تا ہے ،تو یہ کرامت بن جاتی ہے ۔صوفیا ءکے نزدیک اللہ کے بندوں سے کرامت کا سر زد ہونا برحق ہے ۔جس طرح ولایت نبوت کے زیر سایہ ہے ایسے ہی کرامت بھی معجزہ کے تابع ہے یعنی ولی کی کرامت بنی کے معجز کا عکس ہے ۔نبوت معجزے کے اظہار سے اثبات نبوت کا دعوی ہے ۔ولی ، نبی کے دعوی کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے ،یعنی اس کے تابع ہوتا ہے ۔
معجز ہ کا ظہور پیغمبر سے اور کرامت کا ظہور اللہ کے ولی سے ہوتا ہے ۔صاحبِ معجزہ شروع میں تصر ف پیدا کر سکتا ہے کیونکہ وہ خدا کانبیہوتا ہے اور صاحبِ کرامت کے لیے اتباع شریعت ضروری ہے ۔کیونکہ ولی کی کرامت شرع کے بر عکس نہیں ہوتی ہے ۔بلکہ عین شرع کو حق ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔
کرامت اللہ تعالیٰ کی عنائتوں میں سے ہے ۔حضرت سید علی ہجویری ؒ کاملین میں سے ہیں ۔اس لیے آپ سے کر امات کا اظہا ر ہوا ۔اللہ تعالیٰ نے آ پ کو کرامات کے ظہور سے مکرم کیا ۔بیشمار کرامات آپ سے سر زد ہوئیں مگر وہ صفئحہ قرطاس پر نہیں آسکیں ۔آپ کی کرامتوں میں سے جو تذکروں میں موجود ہیں وہ حسب ِ ذیل ہیں :

بے شمار ہندوﺅں کا مسلما ن ہونا 

سوانح حیات حضرت داتا گنج بخش ؒ میں لکھاہے کہ حضرت سید علی ہجویری ؒ ایک مرتبہ شہر میں اس طرف گئے جہاں راستے میں ہندوﺅ ں کے مند ر واقع تھا ۔آج کل یہ علاقہ رنگ محل کے قریب پا نی والا کے نا م سے منسوب ہے ۔یہاں اس دور میں راوی مند ر تھا ،جہاں کئی ہندو بتو ں کی پوجا میں مصروف رہتے تھے ۔آپ نے مندر کے قریب جاکر دیکھا کہ ایک ہندو ایک بت کے سامنے کھڑا ہے اور ہاتھ میں گندم کی روٹی کی بنی ہوئی چوری ہے آپ نے بت کو مخاطب ہوکر کہا کہ اللہ کے حکم سے چور ی کھاﺅ۔تو وہ بت چوری کھانے لگا ۔کچھ اور ہندو بھی وہاں موجو د تھے ان میں ہندو پروہت بھی تھا ۔ہندو پروہت کو بڑا دکھ ہوا کہ ہم سے ایسے واقعا ت نہیں ہو تے اس لیے ہماری توہین ہوئی ہے لہٰذا وہ ا س ہندو سے ناراض ہوگیا جس کے ہاتھ میں چوری تھی ۔بہانہ بنا کر پروہت نے کہا تمھارے اس طرح کرنے سے دیوتا جی ہم سے ناراض ہوگئے ہیں ۔لہٰذا آج سے ہمارا اور تمھارابائیکاٹ ہے ۔
کچھ روز کے بعد وہ چوری والا ہندوآپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضرت !لوگ اس روز کے واقع سے انکار کررہے ہیں ۔میری بات کو کوئی سچ نہیں مانتا ۔آپ نے فرمایا تم اپنے رشتہ داروں اور دیگر احباب کو اکٹھا کر لو اور اللہ کی طاقت دیکھ لو ۔حاضرین جمع ہو گئے ۔آپ نے پھر بت کو حکم دیا چوری کھاﺅ تو وہ چوری کھانے لگا ۔ہندو لوگ یہ واقعہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے تو آپ نے لوگوں سے کہا کہ اللہ ہر کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے لہذا تم ان بے جان بتوں کی پوجا سے تو بہ کر لو اور اللہ کے سچے دین میں آجاﺅ۔تو آپ کی اس توجہ سے بے شمار لوگ کلمہ پڑ ھ کر مسلمان ہوگئے یہ واقعہ پہلے لوگوںمیں سینہ بہ سینہ تھا ،لیکن کچھ عرصہ سے لوگوں نے کتابوں میں نقل کر دیا حقیقت اللہ کو معلوم ہے۔

دودھ میں برکت کا واقعہ 

روایت مشہور ہے کہ ایک روز حضرت سید علی ہجویری ؒ اپنی قیام گاہ پر تشریف فرما تھے اور یاد الٰہی میں مصروف تھے ۔ایک بوڑھی عورت اس طرف سے گزری جس کے سر پر دودھ کا مٹکا رکھا ہواتھا ۔آپ نے اس عورت سے پوچھا کہ تم اس دودھ کی قیمت لے لو اور یہ دودھ ہمیں دے جاﺅ۔اس عورت نے کہا کہ میں یہ دودھ آپ کو نہیں دے سکتی ۔کیونکہ ہم یہ دودھ رائے راجو کو دیتے ہیں ۔اگر نہ دیں تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہماری بھینسوں کے تھنوں سے دودھ کی بجائے خون نکلنے لگتا ہے ۔آ پ نے عورت کی بات سن کر کہا کہ یہ دودھ ہمیں دے جاﺅتو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تمھاری بھینسوں کے تھنوں سے خون نہیں نکلے گا ۔اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ دودھ دیں گی انشاءاللہ !اس کے علاوہ ہر قسم کی آفت سے بھی محفوظ رہیں گی یعنی تمھیں کسی قسم کا نقصان نہیں ہو گا ۔آ پ کی ایما ن فروز باتوں سے وہ عورت اس بات پر رضا مند ہوگئی کہ دودھ آپ کو دے جائے ۔چنانچہ اس نے دودھ آپکو دے دیا ۔اور واپس لوٹ گئی شام کو جب اس نے اپنے جانوروں کو دو ہا تو جانوروں نے پہلے کی نسبت بہت زیادہ دودھ دیااس کے سب برتن بھر گئے ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے دودھ میں بے پناہ برکت ڈال دی ۔
یہ خبر بہت جلد لاہور میں پھیل گئی ۔آخر یہ بات لاہور کے گردو نواح کے دیہاتوں میں جا پہنچی کہ لاہو ر کے باہر ایک اللہ کا فقیر ہے اگر اسے دودھ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ ا س کے دودھ میں برکت ڈال دےتا ہے اور دودھ پہلے کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے ۔چنا نچہ لو گ برکت کی خاطر دودھ آپ کے پاس لے آتے ۔آپ ضرورت کے مطابق لے لیتے اور بقیہ دودھ انھی لوگوں میں تقسیم کردیتے اور جب یہ لوگ گھر جا کر اپنے جانوروں کا دودھ دو ہتے تو اس میں برکت شامل ہوجا تی اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہوجاتا ۔
اس کرامت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لو گ جو رائے راجوکودودھ دیتے تھے وہ دودھ دینا چھوڑگئے اور اس کے خلاف ہوگئے ۔وہ اپنے جادو کے زور سے ان سے دودھ کا نذرانہ وصول کرتا تھا ۔اسے بہت تکبر تھا کہ ہما ر ا دودھ کیونکر کوئی بند کر سکتا ہے جب اسے اصل حال معلوم ہوا کہ اللہ کے فقیر کی دعا سے اس کا جادو اب بھینسوں کے تھنوں پر نہیں چلتا تو اس نے سوچا کہ پہلے سے جادو کو تیز کیوں نہ کر دیا جائے اور اس فقیر کو یہاں سے بھگادیا جائے ۔جس کے پاس لوگ دودھ کا تحفہ دینا شروع ہوگئے ہیں مگر اسے کیا خبر تھی کہ اللہ کے فقیر کی کیا طاقت ہوتی ہے۔اللہ کی رحمت اورمددہر وقت ان کی شامل حال رہتی ہے ۔
آخر کار وہ انتقامی جذبے کے تحت ایک روزآپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمارا دودھ تو بند کر وادیا اب ہمارے ساتھ مقابلہ کرو ۔ہم تمھیں اپنی طاقت دیکھاتے ہیں اور تم اپنی طاقت دیکھا ﺅ ۔دیکھیں کون جیتتا ہے اس کا خیال تھا کہ سادہ سا فقیر میرے آگے کیسے ٹھہرسکتا ہے میں اسے اپنے علم کی بناءپر زیر کرکے یہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کردوں گالیکن اسے کیا معلوم کہ اللہ کے فقیروں کے پاس کتنی بڑی روحانی قوت ہوتی ہے کہ جس کے سامنے دنیوی طاقت ہیچ ہوجاتی ہے ۔
آخر اس نے کہا کہ ہماری طاقت دیکھو ،یہ کہہ کر اس نے اپنی زبان میں کچھ پڑھااور ہوا میں اڑ نے لگا ۔اور آہستہ آہستہ اوپر فضا میں بلند ہونا شروع ہو گیا ۔حضرت سید علی ہجویر ی ؒ نے جب یہ دیکھا تو دل میں یہ دعا کی،یا الٰہی !اب میری عزت کا مسئلہ تیرے ہاتھ ہے ۔اس دعا کے بعد آپ نے اپنی جوتیوں کی طرف دیکھا تو وہ فوراًہی ہوا میں بلند ہو کر اس کے سر پر پڑنے لگیں ۔اوروہ مزید اوپر جانے سے رک گیا اور جوتے پڑنے سے آہستہ آہستہ نیچے زمین کی طرف آنے لگا ۔آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ زمین پر آگیا ۔اس کے جادو نے اس کاساتھ نہ دیا اور وہ اپنی برتری منانے میں ناکام ہوگیا غرضیکہ حق کے سامنے باطل کی کوئی پیش نہ گئی ۔
مگر اس کی ہار کیا تھی وہ تو اصل میں جیت گیا ۔فوراًاس کا ضمیر بیدار ہوا کہ میں نے جو کچھ آج تک کیا ہے اس کی کچھ حقیقت نہیں ۔اللہ کے بندے آخر اللہ کے بندے ہی ہیں ،جہاں تھوڑی دیر پہلے اس کے دل میں بے شمار خداوﺅں کو پوجنے کا نظریہ تھا وہ تبدیل ہو گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ حضرت علی ہجویر ی ؒ کا خدائے واحد ہی سچا ہے ۔وہ زبان جس پر جادو کا ورد تھا اس پر اللہ تعالیٰ کی صداقت بو ل اُ ٹھی ۔
آخر وہ حضرت علی ہجویری ؒ کے قدمو ں میں گر گیا اور عرض کی کہ حضرت !کہ مجھے بھی راہ دکھلا دیجیئے جس پر آپ گامزن ہیں ۔چنانچہ کلمہ طیبہ پڑھ کر آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا ۔کیسی اللہ کی شان ہے کہ سرکار کو زیر کرنے آیا تھا ،خو د زیر ہو کر چلا ۔کفر کے لیے آیا تھا صاحب ایما ن ہو گیا ۔یہ ہے حضرت علی ہجویر ی ؒ کی نگاہ کی کرامت کہ اس کرامت سے اس کافر کی کایا پلٹ گئی اور وہ مسلمان ہو کر معزز اور مکرم ہو گیا ۔
تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے رائے راجو کو پنجاب کا نائب حاکم لکھا ہے اور کسی سے لاہو ر کا حاکم ،کسی نے رائے راجو کو جو گی لکھا ہے ۔بہر کیف وہ جو کچھ بھی تھا اس کے پاس سفلی علم تھا جس کی بنا ءپر اس نے لوگوں کو گرویدہ کر رکھاتھا ۔مگر اس کا علم اللہ کے ولی کے سامنے ہیچ ہو گیا ۔اور وہ ہر طرح سے بے بس ہو گیا لیکن اس کے بے بس ہونے سے اس کا مقدر جاگ اٹھا اور وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر راہِ سلوک پر گامزن ہوگیا ۔تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ پہلا ہندو تھا جو حضرت سید علی ہجویری ؒ کے ہا تھ پر مسلما ن ہوا آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور اسے شیخ ہندی کے لقب سے نوازا ۔ان کے مفصل حالا ت میں نے الا ولیا ئے لاہور میں ایک مقام پر درج کیے ہیں 

دین حق کی سر بلندی کا واقعہ 

حضرت علی ہجویری ؒ نے لاہور میںجب دینِ حق کی تبلیغ شروع کی تو لاہور میں ہندو دھرم پورے عروج پر تھا ۔ہندو پروہتوں کو اپنے دین پر بڑاناز تھا۔وہ کلمہ حق سننے کو بالکل تیا ر نہ تھے مگر آپ تو توحید و رسالت کی شمع روشن کرنے ہی کے لیے لاہور آئے تھے ۔تو آپ غیر مسلموں میں جہاں کہیں موقع پا تے خدائے واحد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے اگر کوئی آپ کے پاس چل کر آتا تو اسے بھی توحید و رسالت کا درس سناتے ۔ایمان لانے کی طرف مائل کرتے اور اس کے صاحب ایمان ہونے کی دعا کرتے ۔اللہ کے فضل و کرم سے آہستہ آہستہ لوگ آپ کی دعوت حق کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے ۔کئی لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔غرضیکہ آپ کے عقیدت مندوں میں دن بدن اضافہ ہونے لگا اور آپ کی شہرت پورے لاہو ر میں پھیل گئی کہ اللہ کا ایک ولی لاہور میں شہر کے غر ب رویہ رہتا ہے جو دین اسلا م کی تبلیغ کرتاہے ۔
آخر آپ کی تبلیغی سر گرمیوں کی اطلا ع لاہور کے حا کم کو بھی ہوگئی ۔جب اسے آپ کی توحید و رسالت کا علم ہوا تو وہ بھی آگ بگولہ ہوا اور انتقامی آگ میں بھڑ ک اٹھا اس نے اپنے سپاہیوں کو بلوایا اور کہا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے شہر میں ایک مسلما ن آکر اپنا دین پھیلا رہا ہے اور تم سوئے ہوئے ہو ۔فوراً اس مسلمان کے تبلیغ کے سلسلہ کو ختم کیا جائے اور اس فقیر کو شہر سے باہر نکال دیا جائے ۔
رات ہوئی تو ہندو سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت سید علی ہجویر ی ؒ کی قیا م گاہ پر آگیا آتے ہی انھوں نے صورتحال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اللہ کا ایک دوست ایک جونپڑی کے اندر اللہ کی یاد میں بیٹھا ہو اہے ۔ذکر الہٰی جاری ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں لاہور کے حاکم نے بھیجا ہے کہ آ پ کو یہاں سے نکال دیں ۔کیونکہ آپ کی تبلیغ سے ہندو دھر م کو بہت نقصان ہورہا ہے ۔ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارا مذہب ختم ہوجائے اور دین اسلام چھا جائے ۔
آپ نے فرمایا کہ میں تو اللہ کی توحید کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچانے آیا ہوں تاکہ غیر مسلموں کی عاقبت درست ہو جائے ۔اور وہ دین حق پر ایمان لے آئیں انھوں نے آپ کی باتیں سن کر کہا کہ ہم نہیں جانتے ۔ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ آپ یہاں سے کوچ کر جائیں اور کہیں اور چلے جائیں ۔آپ نے کہا کہ میں تو یہاں اللہ کی رضا اور اسی کے حکم سے آیا ہوں ۔اب جو بھی میر ے ساتھ ہو ،اللہ میر ا حامی و ناصر ہے آخر حاکم کے بھیجے ہوئے سپاہی سختی پر اتر آئے اور انھوں نے آپ کی جونپڑی کو آگ لگانے کی کوشش کی مگر اسے آگ نہ لگی ۔آخر کار ناچار ہوکر سوچنے لگے کہ یہ کوئی اللہ کا فقیر ہے ۔ہم خواہ مخواہ اس سے زیادتی کرکے اللہ کی ناراضگی کو مول نہ لیں ۔کہیں ہمارا کوئی نقصان نہ ہوجائے واپس لوٹ کرحاکم کو سارا واقعہ سنا دیںگے کہ وہاں ہمارا کوئی بس نہیں چلتا ۔آخر وہ واپس لوٹ گئے ۔اگلے روز انھوں نے اپنی کاروائی کا سارا قصہ حاکم کو بتا دیا ۔اس نے بات سن کر اپنے سپاہیوں کو ڈانٹا اور کہا کہ تمھیں چاہیے تھا کہ اس فقیر کو ضرور کسی نہ کسی طریقے سے شہر سے نکا ل باہر پھینکتے ۔
کرنا خد ا کا ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے حاکم لاہور کے محل میں آگ لگ گئی اور وہ قابو سے باہر ہوگئی اور بجھنے پر نہ آرہی تھی کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات اٹھی کہ کل رات میں اس فقیر کی جونپڑی کو جلوانے لگا تھا ، شاید اسی وجہ سے وہی سزا مجھے مل گئی اللہ کے اٹھا ئے ہوئے اس خوف سے اس کا دل بیدار ہوگیا اور وہ خود چل کر حضرت سید علی ہجویر یؒ کی قیام گاہ پر آیا اور معافی کا طلب گار ہوا آپ نے اس سے درگزر فرمایا اور اسے معاف کر دیا ،جونہی اسے اللہ کے ولی کامل سے معافی ملی تو اس کے محل کی آگ خود بخود ٹھنڈی ہو گئی ۔آخر کا ر وہ آپ کی روحانی طاقت سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا ۔
یہ کرامت میں نے کتا ب ” مقاماتِ اولیا ء“ سے لی ہے مگر اس کا بھی تذکر وں میں کہیں ذکر نہیں ۔اللہ بہتر جاننے والا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔

محراب سے کعبہ نظر آنے کا واقعہ 

اللہ کے بیشتر اولیاءجہاں کہیں بھی گئے وہا ں سب سے پہلے انھوں نے اللہ کا گھر یعنی مسجد ہی بنائی ۔کیو نکہ مسجد اسلامی معاشرت کی بنیا د ہے اس لیے حضرت سید علی ہجویری ؒ کو جب لاہور میں آئے ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا تو آپ نے سوچا کہ اب یہاں مسجد کی بنیا د رکھی جائے تاکہ جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں انھیں اللہ کی عبادت کے طریقے سکھلائے جائیں اور نما ز کی عملی تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔اس ضر ورت کے پیش نظر آپ نے اپنے عقیدت مندوں میں مسجد کی خواہش کا اظہا ر کیا ۔چند ساتھیوں نے مکمل تعاون کا اظہا ر کیا ۔چنانچہ ایک روز مسجد کا تعمیراتی سا ما ن اکٹھا کر کے مسجد کی بنیا د رکھ دی ۔آہستہ آہستہ مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی ۔آخر کچھ دنوں کے بعد مسجد تعمیر ہو کر مکمل ہوگئی ۔ادھر اُد ھر کے لوگو ں نے آکر دیکھا کہ مسجد تو بن گئی ہے لیکن اس کا محراب کعبتہ اللہ کی سمت یعنی مغرب کی طرف بالکل سید ھا نہیں ہے بلکہ تھوڑاس ٹیڑھا ہے آپ نے لوگوں کا اعتراض سن لیا ۔جب مسجد ہر لحاظ سے مکمل ہوگئی تو آپ نے لوگوں کو مدعو کیا کہ آﺅ سارے اس مسجد میں نماز ادا کریں ۔
آخر نماز کا وقت ہوا ،اذان ہوئی ۔اس کے بعد نماز کی جماعت کھڑ ی ہوئی آپ نے خود امامت فرمائی ۔جب لوگ نماز سے فارغ ہوگئے تو آ پ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مسجد قبلہ رخ نہیں ہے ۔آﺅ دیکھو کہ قبلہ کس طرف ہے جو انھوں نے نظر اٹھاکر دیکھا تو مسجد سے کعبة اللہ نظر آنے لگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولی کو مکرم رکھنے کے لیے مسجد سے لے کر کعبةاللہ تک تمام حجابات کو درمیان سے اٹھا دیا۔ آپ نے کہا کہ دیکھا کہ جس مسجد سے براہِ راست کعبہ نظر آرہا ہے کیا وہ ٹیڑھی ہے ۔سب لوگ اس با ت پر حیران ہو گئے کہ یہ اللہ کا کتنا عظیم اور باکمال ولی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اعتراض کو کس شان سے دور فرمادیا ہے ۔تمام اعتراض کرنے والے بڑے نادم ہوئے کہ ہم نے حضرت سید علی ہجویر ی ؒ کی تعمیر کردہ مسجد پر اعتراض کیو ں کیا۔دل ہی دل میں بڑی شرمندگی کے ساتھ آپ سے معذرت کی ۔آپ نے فرمایا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔آپ کی یہ کرامت اس دور میں کافی مشہور ہوئی ۔(سیفیئةالاولیا ئ) 

                     لاہور کے ایک سوداگر کا واقعہ 

حضرت نے کشف الاسرار میں ایک جگہ دنیا کوسراسر درد الم کی جگہ قرار دیا ہے عورت کو بے وفا بتایا ہے ۔لاڈلی اولاد کے نقصان بتائے ہیں او ر صبر کرنے اور قسمت سے زیادہ حاصل کر نے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے پر افسوس ظاہر کیا ہے اور اس کی مثال میں لاہور کا یہ چشم دید ہ واقعہ لکھا ہے :۔
فرماتے ہیں کہ لاہور میں ایک سوداگر تھا ،کریم اللہ نام تھا ۔مال اور دولت اس کے پاس باافراط تھا۔اسکے گھر بیٹا پیدا ہوا ۔امام بخش نام رکھا ۔بڑے جشن کیے بڑی خوشی منائی ۔اسی دن خبرآئی کہ جس کارواں میں اس کا مال تھا اس پر ڈاکہ پڑا ہے تھوڑے عرصہ کے بعد ایک اور کارواں کے لٹنے کیخبر آئی او ر لڑکا بھی ناز اور نعمت سے پر ورش پا رہا تھا ۔غرض بے چارہ تنگ ہو کرخود باہرنکلا مگر نا کا م واپس آیا ۔لڑکے کو مکتب میں بیٹھایا ۔جب صاحبزادہ نے استاد کی داڑھی کھینچنا چاہی تو اس نے بھی جواب دے دیا ۔یہاں تک کہ وہ لڑکا آوارہ ہوگیا ۔گھر کی چیزیں بکنے لگیں ۔گھر کی چکی سوداگر کی عورت نے چار درہم میں بیچی اور آخر خاوند سے بے وفا ہوگئی اور یکے بعد دیگرے تینوں درد نا ک موت سے مر گئے ۔
آخر میں فرماتے ہیں کہ تقدیر الٰہی ایسی ہی تھی ۔کسی کو دم مارنے کی طاقت نہیں کہ وہ مالک ہے اور ہم اس کے بند ے ہیں ۔

بھٹی قوم کے قبول اسلام کا واقعہ 

اس دور میں بھاٹی کے علاقے میںبیشتر آبا دی ہندوﺅں کی تھی جو بھٹی کہلا تے تھے اور بھاٹی کی وجہ تسمیہ بھی یہی تھی ۔مسلمان عقیدت مند جو داتا صاحب کی زیارت اور رشد و ہدایت کے لیے آتے تھے ان کا اکثر گزر بھاٹی سے ہی ہو تا تھا ۔چونکہ داتا صاحب کامسکن بھاٹی کے باہر تھا اس لیے ازراہِ عقیدت لوگوں نے بھاٹی کا نام بدل کر آپ کی نام پر ہجویری محلہ رکھ دیا ۔
بھٹی کہلوانے والے ہندوﺅں کو یہ بات ناگوار محسوس ہوئی ۔انھوں نے جے سنگھ کی قیادت میں ایک وفدحضرت سید علی ہجویری ؒ کے پاس بھیجا،جس نے انھیںاپنے جذبات سے آگاہ کیا ۔آپ نے ہندوﺅں کی شکایت کو بڑے ٹھنڈے دل سے سنا اور فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کانام بھاٹی ہی رہے گا ۔
ظاہر ی نمود و نمائش اور خود ستائش کو جب آپ نے ٹھوکر مار دی اور یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ظاہری زیب و زینت گوارانہیں ہوتی اور نہ ہی وہ دنیاوی زیب وزینت کو پسند کرتے ہیںبلکہ ہمیشہ اپنے صفائے بدن کی طرف دھیان دیتے ہیں آپ کے اس فیصلہ سے ہندوبھٹی اور انکے وفد کا لیڈر اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے آپ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر لیا ۔اس دن سے سب بھٹی مسلمان کہلانے لگے اور یہ وہ ہی بھٹی مسلمان ہیں جوجذبہ اسلام سے آج تک سر شار ہیں ۔اس واقعہ کی تصدیق دوسرے مورخین نے بھی کیا ہے ۔جن میں مسعود الحسن بھی شامل ہیں ۔ان کی کتاب ”حضرت داتا گنج بخش اے سپر چوئل بایو گرافی “میں یہ واقعہ بھی درج ہے ۔

آپ ؒ سے ملک ایاز کی عقیدت مندی کا واقعہ 

سلطان محمود غزنوی نے ۴۱۴ھ میں جب لاہور پر حملہ کیا تو راجہ جے پال کا بیٹا راجہ اننگ پال تھوڑے ہی مقابلہ کے بعد دُم دبا کر بھاگ نکلااور لاہور شہر پر محمود غزنوی کا قبضہ ہوگیا۔محمد لطیف مرحوم نے تاریخ لاہور میں لکھا ہے کہ جب محمود غزنوی نے ۴۱۴ ھ میں لاہور پر قبضہ کر لیا تو اپنے محبوب ملازم ملک ایاز کو اس کے اصرار پر ایک محافظ دستہ فوج کے ہمراہ لاہور میںچھوڑدیا ۔یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ ملک ایازکو بزرگانِ دین نے سلطان محمود غزنوی کی ذاتی حفاظت کے لیے مامور کیا ہوا تھا روحانی عالم میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ ایک جری انسان غزنی سے اٹھے گا اور ہندوستان میں کفار کے بت پاش پاش کرکے مسلمانو ں کی عظمت اور شجاعت کا ایسا سکہ جمائے گا کہ یہاں تھوڑے ہی عرصہ میں توحید اور رسالت کا بول بالا ہوجائے گا اس پس منظرمیں اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روشن ہوجا تی ہے کہ جری اور بہادر لشکر میں کچھ ایسے بھی انسان ہوتے تھے جو صر ف خدا اور اس کے رسول کی جانب راغب ہوتے تھے ۔ملک ایاز کانام بھی ایسے بزرگانِ دین میں شمارہوتا ہے ۔محمود غزنوی کو اس پیکر وفا کے ساتھ دلی لگاﺅ تھا ۔جب محمود غزنوی نے اپنا کام مکمل کر لیا تو ملک ایا ز نے کہا کہ میں غزنی نہیں جاﺅ گا ۔کہتے ہیں کہ زندگی میں پہلی بار محمود غزنو ی نے یہ انکار ایاز کی زبان سے سنا ۔غلام کے آگے آقا نے سر تسلیم خم کر دیا اور محمود غزنوی نے اسے لاہور چھوڑدیا ۔
 کافی سے زیادہ سونا ، چاندی ، ہیرے اور جواہیرات اس کے سپرد کرکے غزنی کا مسافر رخصت ہو گیا ۔اسے کیا علم تھا کہ ایاز کا یہ انکار ایک نئے قدم کا اقرار تھا اور یہ نیاقد م راہِ حق کی جانب تھا ایاز نے اب صحبت فقر اختیار کر لی ۔
سلطان محمود غزنوی کے بعداس کا بیٹا سلطان مسعود بنا ۔مگر چند ہی عرصہ کے بعد راجے جے پال کے بیٹے راجے اننگ پال نے ایک زبر دست حملہ کر کے مسعو د سے حکمرانی چھین لی ۔اور جوشِ انتقام میں اس راجہ نے لاہور میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ ایک ہی محلے سے دو ہزار لاشیں اٹھا ئی گئیں ۔اور لاہو رخالی ہوگیا ۔اس دور میں غزنی کا ایک نیا مسافر لاہور میں وارد ہوا ۔فرق یہ تھا کہ غزنی کا پہلا مسافر محمود غزنوی جذئبہ شجاعت سے لبریز تھا اور نیا مسافر روحانیت اور خدا کی وحد انیت کا علم بردار ۔غزنی کا یہ نیا مسافر حضرت مخدوم علی ہجویری ؒ تھا ۔
ملک ایاز کو خواب میں حکم ملا کہ وہ فوری طور پر اب غزنی کے نئے مسافر کا غلام ہوجائے حضرت داتا گنج بخش ؒ کے پاس حاضری دی اور بیعت کے بعد آپ کے ہاتھوں فقر وغنا کا جامہ پہن کر یہ فیصلہ کرلیا کہ اب وہ لاہور کو دوبار ہ آباد کرے گا ۔وہ مسلمان جو لاہور چھوڑ گئے تھے ملک ایاز کی قیادت میں جو ق در جوق واپس آنا شروع ہو گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے لا ہو ردوبارہ آباد ہونا شروع ہو گیا اور اللہ اکبر کی تکبیریں گلی گلی کوچے کوچے بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔محمود کے غلام نے اپنی دولت اور مال و متاع تما م حاجت مندوں میں تقسیم کر دیا اور خود گوشہ نشین ہو گیا ۔ایاز پر یہ عیاں ہو گیا کہ اس کا غزنی جانے کاانکا راور لاہور رہنے پر اصرار ایک حکم خداوندی تھا ۔آخر ۰۵۴ھ میں ملک ایاز نے وفات پائی ۔لاکھو ں فرزندانِ توحید نے نماز جنازہ میںشرکت کی اور اسلام کے عظیم فرزند کو لاہور میں چوک رنگ محل کے قریب سپر دخاک کر دیا لاہور شہر کے عین دل میں واقعہ یہ مزار اس غلام کی عظمت اوربلند کردار کی ایک ناقابل فراموش یاد گار ہے ۔ (کشف کرامات ِ حضرت داتا گنج بخش 

2 comments:

  1. zbrdst kam hy sir aur awlia Allah ki sawna per bhi ho jaye thorra kam!!!!!!!

    ReplyDelete
  2. Hazrat yeh kramat kis kitab min milin gi

    ReplyDelete