راہِ راست کی تلقین
حضرت سید علی ہجویریؒ نے راہِ راست کی تلقین کرتے ہوئے کشف اسرارمیں فرمایا ہے:
تعریف اس خدا کی جس نے ہمیں عناصر اربعہ سے بنایا اور نعمت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔
فقیر بادشاہوں اور حاکموں کی دوستی اور ہم نشینی کو سانپ اور اژدہا کی دوستی جانے ۔فقیر کو بادشاہ کا قرب میسر آتا ہے تو اس کا توشہ برباد ہوجاتاہے ۔
اور چونکہ لباس پر بہت سی باتیں ہوسکتیں ہیں اس لیے اس کا ذکر کشف المحجوب میں کیا گیا ہے ۔یہاں اسی قدر کہنا کہ چار ٹوپی گوشہ سر پر رکھ کرکوئی فقیر نہیں بن جاتا ہے ۔ٹوپی چاہے کسی طرح کی سرپر رکھ مگر سچا فقیر بن ۔اور راضی برضا ہو فقیر دولت مند کی ہم نشینی کے لیے فقیری لباس پہنے تو اسے آتش پرست ،مغرور متکبر جا نو۔
اگر تو ہفت ہزاری بھی ہوجائے تو کیا ۔آخر ایک مشت خاک ہے اور خاک بھی ہوتا ہے ایک قطرہ ہے پھر اتنا غرور کس لیے ۔بالآخر دنیا سے تجھے جو کچھ ملنا ہے ،وہ چار گز کفن ہے اور خدا جانے وہ بھی ملے یا نہ ملے ۔
اے دوست !میں اور تو پردیسی ہیں ۔دعا کرکہ خد ا ہم پر کرم کرے اور اپنی یا د کا ذوق عطا کرے میں بے چارہ نہاں وآشکا را آوارہ ہوںاور ہر دم محبوب کا نام جپتا ہوں
اے دوست !میں نے بہت دنیا دیکھی ہے ۔اللہ تعالیٰ سے نیک اولاد مانگ اگر مجرد رہنے کی طاقت ہے اور سمجھتا ہے کہ ڈگمگائے گا نہیں ۔تو شادی نہ کر کیونکہ یہ بڑی بلا اور عذاب ہے ۔
مجھے ایک دوست کی بات یاد آتی ہے ،کہتا تھا کہ اے دوست !خدا کی عنایت ہوتو جنگل میںجا کر خدا کی عبادت کرو ں اور کسی سے سوائے خدا کے نہ مانگوں او رمیں (علی بن عثما ن جلا بی )اس کو دوست رکھتا ہوں جو قریب رہ کر دوست رہے ،برائیوں سے بچے تا کہ با مراد ٹھہرے ۔
بلا شبہ حضرت خضر علیہ السلام اولیا ءاللہ کے دوست ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ اولیاءاللہ کی لقا اور مشاہدہ ربانی ہوتاہے ۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ دس چیزیں دس چیزوں کو کھاجاتی ہیں :
توبہ گنا ہ کو ،جھوٹ رزق کو ،چغلی عمل کو ،غم عمر کو ،صدقہ بلا کو ،غصہ عقل کو ،پشیمانی سخاوت کو ،تکبر علم کو ،نیکی بدی کو ،ظلم عدل کو ،یہ باتیں دوستوں کو بتاتا ہوں تاکہ ان پر عمل کریں اور میرے حق میں دعائے خیر کریں ۔مجھے یا د رکھیں ۔خدا کو پہچانیں اور غیر پر نگاہ نہ کریں ۔
اے دوست !دنیا پانی کی کشتی ہے اور بن پانی کا ملک ،تو غوطہ خور بن ،ڈوبنے والا نہ بن ۔وہ کر جس سے کسی کو تجھ سے فیض ملے ۔وہ نہ کر جس سے کسی کا د ل دکھے دین پناہ بادشاہ کی صفت یہ ہے کہ وہ جو رستم کو قلع قمع کرنے والا اور رعیت کے نفع نقصان کو جا ننے والاہو ۔دنیا نہ ڈھونڈ ھ۔دنیا مردار ہے اور اسکا طلب گارکتا بیان کیا گیا ہے اور عقبیٰ کا طالب بھی نہ بن اسے بھی عذاب جان ۔رضائے مولیٰ کا طالب بن
کیونکہ رضائے مولیٰ از ہمہ اولیٰ ۔حرص و لالچ بیکا ر ہیں ۔انھیں ذلت سمجھ اور طمع نہ کر جس شخص نے قناعت کی ،عزت پائی ۔طمع کرنے والا ذلیل ہوا ۔
اے طالب !اپنے حبیب لبیب کا غم پید اکر ۔راہِ خدا کا مردِ راہ بن ۔رات عبادت میں بسر کر ۔حواس کو کھول ۔زیادہ رو اور کم ہنس ۔خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چاہیئے کم ہنسیں اور بہت روئیں ۔“صبح کے وقت دریا پر جا ۔حضرت خضر علیہ السلام سے محبت کر اور اسم مذکور کا ذکر کر تاکہ منزل مقصود پر پہنچے ۔
لازم ہے کہ تو خواہشاتِ نفس کی طرف میل نہ رکھے ۔لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر ے تنہائی اختیا ر کر اور جو نذر نذرانہ ملے درویشوں میں تقسیم کردے اور اپنے پا س کچھ نہ رکھے خدا کے سوا کسی سے لو نہ لگائے ۔کسی قبر پر سے گزرہوتو پڑھ کر اسے بخشے تا کہ وہ بھی تیرے حق میں دعا کرے اگر کھجور کی کٹھلی بھی تیر ے ذمے ہے تو اسے ادا کردے اپنے پاس کچھ نہ رکھ ۔
شرک نہ کر ،جب تک جا ن میں جا ن ہے اسے وحدہ لا شریک خیا ل کر ۔
اپنے آپ کو پردیسی او ر مسافر جا ن کہ افضل ا لبشرپیغمبر اور محبوب خالق ﷺ اکبر نے کہا ہے کہ دنیا میں یوں رہو جیسے تم پردیسی ہویا مسافر ۔
ذوقِ شعر گوئی
آپ نے عشق الٰہی کے غلبہ میں آکرکئی اشعار کہے ہیں جو حقیقت اور معرفت سے لبریز تھے ۔آپ کی شاعری پر مشتمل دو کتب تھیں ایک دیوانِ شعر اور دوسرا رسالہ کشف الاسرار ۔ان میں سے تو پہلی کتا ب نہ پیدہے اور دوسر ی کتا ب ملتی ہے ۔
کشف الاسرار میں بھی آپ نے اپنے دیوان کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ میں نے بہت سے شعر کہے ہیں بلکہ ایک دیوان بھی تیا ر کیا ہے جو دیکھنے والوںکی نظر میں بہت پسند اور مرغوب ہوا ہے ؛
شاعری میں آپ نے کسی سے اصلا ح نہیں لی اور نہ تکلف اور غور اور تصنع ،اور دماغ سوزی کو شاعر ی میں دخل دیا ہے بلکہ بے ساختہ جو زبان پر آیا ہے اور یاد الہٰی نے جس قسم کی تڑپ پیدا کی ہے ویسے ہی اشعار موزو ں ہوتے گئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں ۔
”اے مرید !میں ہر روز یار کے دیدار کو جاتا ہوں اور وہ کبھی کبھی مجھے جلوہ بھی دیکھاتا ہے اور میں نے اپنے دیوان کو اسی حال میں کہا ہے کہ جب یا ر کا منہ دیکھا جو کچھ بے اختیار منہ سے بغیر کسی فکر سے نکلتا گیا دیوان بن گیا ۔“
اشتیاقت روزو شب وارم دلا عشق تو وارم نہاں ونر ملا
جاں تجوا ہم داد اندرکوئے تو گر مرا آزاد آید یا ہلا
سوزِ تو وارم بسانِ جا ن و دل مید ہم از عشق تو ہر سو صدا
یا خداوند ! رقیباں را بکش مست دریاوت مگر داں یا مرا
یا رم من !واری شراب ِ جا م خوش مہربانی کن بمن غم مبتلا
دلبرا از تو ہمی خواہم لقا کن تو آرے ومکن ہر گز تو لا
اے علی !تو فرخی ور شہر و کُو
وہ ز عشق خو یشتن ہر صدا
اشعار کا ترجمعہ :۔
(۱) دن کو مجھے تیری آرزو رہتی ہے اور رات کو تیر ی محبت ،چھپ کر بھی اور ظاہر میں بھی تیر ے عشق کا اظہار کر تا ہوں ۔
(۲)میں تیر ی گلی میں اپنی جان دے دو گا خواہ اس کے نتیجہ میں مجھے تکلیف پہنچے یا مصیبت ٹوٹے ۔
(۳) تیرے عشق نے میرے دل و جا ن میں گھر کیا ہوا ہے میں ہر طرف تیرے ہی عشق کے چرچے کر رہا ہوں ۔
(۴) اے خدا !رقیبوں کو ختم کردے یا مجھے یا د میں اس قدر محو کردے کہ مجھے ان کی پر واہ نہ رہے ۔
(۵)میرے پیالے میں اپنے دوست کی شراب ہے تو اسے مجھ پر مہربا ن بھی کر اور اسے میر ا مبتلا بھی کردے ۔
(۶) کتنی عجیب بات ہے کہ میں تجھ سے دید کی خواہش کروں اگر تیری عادت ہاں کرنے کی ہے تو پھر مجھ سے بھی انکا ر نہ کرنا ۔(۷)اے علی !تو شہروں او ر گلی کوچوں میں خوش قسمت ہے تو اپنے عشق کا بول بالا کردے ۔
میں کہتا ہوں خد اکی تعریف ہر دم کرنی چاہیئے کیونکہ وہی پشت و پناہ ہے اور وہی فریا د درس ہے ۔
No comments:
Post a Comment