Tuesday, December 2, 2014

اخلاق حمیدہ

اخلاق حمیدہ 

اللہ والے ، اخلا ق حسنہ کا منہ بولتا شاہکار ہوتے ہیں ۔حضرت سید علی ہجویری ؒ اچھے اخلا ق کی جیتی جاگتی تصویر تھے ۔آپ نے اپنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیر ا ہونے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا اس لیے آپ نے ہر حال میں ہر کام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کی ۔آپ میں اخلاق حمیدہ کے وہ تمام اوصاف موجو د تھے جو ایک باشرع ،متقی اور پر ہیز گار میں ہونے چاہےں اور آپ کی اخلاقی خوبیوں کی بناءپر آپ کے پا س ہر آنے والا آپ کی ذات ِ اقدس سے متاثر ہوتا اور آپ کی نصحیت کو قبو ل کر لیتا ،یہ آپ کے اچھے اخلاق ہی تھے جنھوں نے لاہور میں آپ کے آتے ہی آپ کو شہر ت کے دوام سے بہت جلد اہل لاہور میں متعارف کروادیا۔یہ آپ کے اخلاق حسنہ ہی تھے کہ جن سے بیشمار ہندو متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔آپ کے اخلا ق حمیدہ کے چند پہلو حسب ذیل ہیں ۔

اندازگفتگو 

آپ کا انداز گفتگو بڑا شیریں تھا ۔آپ ہر کسی سے اچھی بات کہتے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھی بات کہنے کا حکم دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق آپ کی گفتگو نیک اور اچھی ہوتی ۔آپ کے سمجھانے کا انداز بڑا ہی ہمدردانہ تھا اس لیے آپ سے کلام کرنے والے کے دل پر آپ کی باتوں کا اثر ہوتا اور وہ آپ کے گر ویدہ ہو جاتا اور دین اسلام قبول کرنے پر فوراًرضا مندی کا اظہار کرتا ۔
یہ آپ کی شیریں کلامی کا اعجاز تھا کہ آپ کے ۴۳ سالہ قیام کے دوران ہندو مسلمان ہوتے رہے ۔آپ کی باتوں نے اس قوم کے دل مو ہ لیے جواسلام کے بالکل خلاف تھی ۔شروع شروع میں جب آپ نے مسجد بناکر درس دینا شروع کیا تو تذکروں میں لکھا ہے کہ بے پناہ لوگ آپ کے درسوں میں آتے ،توان لوگوں کا درس میں بڑے شوق سے آنا آپ کی خوش کلامی ہی کی وجہ سے تھا ۔
حکایت 
آپ کی ہمدردانہ باتوں کا اندازہ اس حکایت سے ہوتاہے جو انھوں نے کشف المحجوب میںیوں بیان فرمائی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ماوراءالنہر کے ایک ملامتی سے ملنے کا اتفاق ہو ا۔صحبت میں کشادگی اور بساط کی کیفیت پیدا ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ بھائی !ان بیہودہ افعال سے تمھار امقصد کیا ہے ۔اس نے کہا کہ مخلوق کو اپنے سے دور کرنا ۔میں نے کہاکہ مخلوق بے شمار ہے اور تیر ی عمر اور زبان اورمکان محدود ،تو مخلوق سے اپنا دامن نہیں چھوڑا سکے گا لہٰذا بہتر یہ ہے کہ تو اسے چھوڑ دے تاکہ اس تکلف سے بچ جائے ۔

حق گوئی 

حضرت سید علی ہجویری ؒ کے اخلاق حمیدہ کاایک پہلو حق گوئی ہے آپ نے زندگی بھر حق کی بات کہی ۔چونکہ آپ کو قرآن و حدیث پر مکمل عبو رحاصل تھا اس لیے آپ نے ہمیشہ جو با ت بھی کی وہ حق کی بنیا د پر کہی ۔آپ حق بیان کرنے ہی کے لیے لاہور تشریف لائے ۔یہ آپ کی حق گوئی ہی تھی کہ آپ کو کہاں سے کہاں لے آئی ۔اور یہاں آکر غیر مسلموں میں اللہ کی تو حید کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا کہ لوگ حق کی طرف مائل ہو کر مسلمان ہوئے ۔دیار غیر میں آکر ان ہندوﺅں کے سامنے حق کی بات کہنا بڑا مشکل تھا ۔جو صدیوں سے بُتوں کے پجاری تھے اور اپنے دین کے خلاف ایک بات بھی سننے کو تیا ر نہ تھے ۔مگر آپ نے اللہ کے بھروسے پر علی الاعلان انھیں حقیقت سے باخبر کیاکہ تم جن بتوں کو پوجتے ہو یہ خدا نہیں ہیں بلکہ میرا اور تمھارا خد ا وہی ایک معبود بر حق ہے ۔جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہمیں رزق دیتا ہے ۔ہماری زندگی اور موت اسی کے ہاتھ ہے ۔
ہندوﺅں کے دیش میں آکر انھیں جھوٹا قرار دینا ہی کوئی معمولی بات نہ تھی ۔مگر آپ نے ہر قسم کے خطرے سے بالا تر ہو کر حق بات کہی ،یہ کتنی بڑی ہمت اور بلند اخلاقی کی دلیل ہے ۔کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ میں علی بن عثما ن الجلابی کہتا ہوں کہ کلام کرنا دو طرح کا ہے اور خاموشی بھی دو طرح کی ہے کلام ایک حق ہوتا ہے ایک باطل ،اورایک خاموشی حصول مقصد پر ہوتی ہے اور دوسری غفلت کی بناءپر ۔گفتگو یا خاموشی کے وقت ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے ۔اگراس کی گفتگو حق پر مبنی ہے تو اس کا کلام خاموشی سے بہتر ہے اور اگر اس کی گفتگو صداقت پر مبنی نہیں تو خاموشی گفتار سے افضل ہے۔اسی طرح خامو ش حصول مقصود یامشاہدہ کی وجہ سے ہے تو کلام سے بہتر اور اگر حجا ب یا غفلت کی وجہ سے ہے توخاموشی سے کلام بہتر افضل ہے ۔اسکے معنٰی میں ایک دنیا حیران و سر گرداں ہے ۔مدعیانِ طریقت کا ایک گرو ہ ہو او ہوس کی بنا پر حقیقت اور معنٰی سے خالی خولی عبارتوں اور الفاظ کا دلدادا ہے اس کا کہنا ہے کہ کلام خاموشی سے بہتر ہے اس طرح جاہلوں کا گروہ جسے راستے کے کنویں کی بھی پہچان نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ خاموشی کلام سے بہتر ہے ۔
یہ دونو ں گروہ ایک جیسے ہی ہیں ۔کسی کو بول دیں یا خاموش کرائیں ۔حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے ۔جو بولتا ہے وہ غلط ہوتا ہے یا صحیح اور جس سے گفتگو کرائی جاتی ہے (تائید ایزدی سے )وہ خطا اور خلل سے محفوظ ہوتا ہے ۔چنانچہ شیطان خو د بو لا تو اس نے کہا کہ اَنَا خَی ±ر µ مِّن ±ہُ( میں آدم سے بہتر ہوں ) اس کے نتیجے کے طور پر اس کے ساتھ جو کچھ ہو اوہ سب کو علم ہے ۔آدم علیہ السلام کی زبان حق تعالیٰ نے کھلوائی تو انھوں نے فرمایا رَبَّنَا ظَلَم ±نَا اَن ±فُسَنَا ۔( ا ے ہمارے رب !ہم نے اپنی جا نو پر ظلم کیا ) چنانچہ انھیں برگزیدگی بخشی گئی ۔
اخلاص 
حضرت سید علی ہجویری ؒ کے اخلاق کا پہلو اخلا ص ہے ۔آ پ جو کام بھی کرتے بڑے اخلا ص سے کرتے ۔آپ نے جتنے مجاہدے کیے وہ بڑی خلوص نیت سے کیے اور اپنے کسی عمل میں کبھی ریا کاری کو شامل نہ ہونے دیا اگر آپ نے لاہور میں آکر سب سے پہلے مسجد کی بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھی تو اس میں اخلاص نیت یہ ہی تھی کہ یہاں اللہ کی مخلو ق عبادت کے لیے آئے ۔آپ کو مسجد بنانے میں کوئی ذاتی غرض نہ تھی صرف رضائے الہی پیش نظر تھی ۔اس کے علاوہ آپ نے لاہور میں تبلیغ اسلا م کا فریضہ سر انجام دیا تو اس میں اخلاص ہی تھا جس کی بنا پر لوگ آپ کے ہم نوا ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
غرضیکہ آپ کے ہر کا م کی بنیاد خلوص تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر کام میں کامیابی عطا فرمائی ۔آپ نے عمر کا بیشتر حصہ سیرو سیا حت میں گزارا اور بہت سے مشائخ کر ام سے ملاقا تیں کیں اور ان کی صحبتیں بھی اختیار کیں مگر اللہ تعالیٰ کی زمین پر پھر نے گھومنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح راضی ہوجا ئے اللہ کی رضا چونکہ اخلاص نیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ،لہٰذا آپ نے جتنی سیر وسیاحت کی ان کی بنیاد میں خلو ص نیت شامل تھی ۔
سخاوت اور فیاضی 
حضرت سید علی ہجویری ؒ بڑے دریا دل اور فیا ض تھے ۔اللہ کی راہ میں جو ہوتا دے دیتے ۔اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی کو دینے سے کبھی گریز نہیں کیا اور نہ ہی کبھی سوچا کہ اب اگر اللہ کی راہ میں جو کچھ ہے وہ دے دیا تو پھر مجھے کیسے ملے گا ۔چونکہ اللہ کے ولی دولت جمع کرنے کے حق میں نہیں ہوتے ان کانظریہ ہے کہ مال ملنے پر ضرورت کے مطابق اپنی ضرورت پوری کر لو اور بقیہ کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو اسی نظریے کے پیش نظر آپ خدمت میں جو کچھ آتا اسے بے حساب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ۔اور پھر سب سے بڑی خوبی ہی ہے کہ جسے دیا اسے زندگی بھر کبھی احسان نہ جتلایا اور نہ ہی کسی قسم کی اس کے بدلے میں کسی سے خدمت لینے کی کوشش کی ۔ غرض یہ کہ آپ حد سے بڑھ کر سخی تھے ۔آ پ نے اللہ کی راہ میں سخاوت کرنے کا ذکر کشف المحجوب میں یوں کیا ہے :
حکایت 
آپ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عراق کے علاقے میں دنیا کی طلب اور اسے خرچ کرنے میں کافی بڑھ گیا اور مجھ پر بہت قرض ہو گیا ۔جس کو کوئی ضرورت ہوتی وہ میرے پاس آجاتا ۔اور میں ان لوگوں کی ضروریا ت کو پورا کرنے میں الجھ کر رہ گیا ۔بزرگان وقت میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا ، دیکھو بیٹا !اللہ تعالیٰ سے اپنی توجہ ہٹا کر ایسے لوگوں کی دلدادی میں مصروف نہ کرو جو خواہشات میں مشغول ہیں اگر کوئی دل اپنے دل سے زیادہ مرتبے والا پاﺅتو اس کی دلدادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ورنہ اس کام سے اپنا ہاتھ ہٹا لو ۔اس لیے کہ خدا کے بندوں کی کفالت خدا کے ذمے ہے اس پر عمل کرنے سے تھوڑے وقت میں میری جان آزاد ہوگئی ۔
اس حکایت سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سخاوت میں اعتدال سے کام لینا بھی ضروری ہے ورنہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
عفو اوردرگزر
حضرت سید علی ہجویریؒ کے اچھے اخلا ق کا ایک پہلو عفوو درگزربھی ہے ۔راہِ حق میں کئی لوگ اللہ کے بندوں کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔بعض اوقات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اس کی جان لینے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔لہذا جب آپ نے لاہور آکر دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا تو ابتدا میں کئی لوگ آپ کے دشمن بنے ۔اور آپ کو کسی نہ کسی بہا نے سے اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ آپ یہاں دین کی تبلیغ کا کام نہ کریں بلکہ کہیں اور چلے جائیں مگر آپ کو راہ ِ حق کی تبلیغ میں بےشمار لوگو ں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔کئی ہندوپروہتوں نے آپ کی سخت مخالفت کی مگر آپ نے ان سے ہمیشہ درگزر فرمایااور ان کے لیے راہِ ہدایت ملنے کی دعا کی ۔
ایسے ہی جب رائے راجو نے جب آپ کی مخالفت کی تو آپ نے اس سے بھی درگزر فرمایابلکہ اس پر ایسی نظر عنایت کی کہ وہ مشرف بہ اسلام ہوکر آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا غرضیکہ آپ نے زندگی کے ہر موڑ پر عفواور درگزر سے کام لیا۔
حکایت 
حضرت علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنے سفر کے دوران کسی بات سے اتنا رنجید خاطر اور زیر بار نہیںہوتا تھا جتنا اس بات سے کہ جاہل خدمت گزار اور کم عقل مقیم مجھے ساتھ لے لیتے اور اس خواجہ کے گھر ،اس دہقان کے گھر لیے پھر تے ۔میرا دل اس سے نفرت کرتا مگر ظاہر سے میں در گزر سے کام لیتا ۔مقیم حضرات جو بے راہ روی میرے ساتھ اختیا ر کرتے رہے ہیں ۔میں نے دل میںعہد کیا تھا کہ اگر کسی وقت میں مقیم ہو گیا تو مسافروں سے یہ سلوک ہرگز نہیں کروں گا، بے ادبوں کی صحبت میں اس کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں کہ ان کے برتاو ¿ میں انسان کو جو چیز اچھی نہ لگے انسان اس سے پرہیز کے قابل ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی درویش ہو کر چند دن ٹھہرے اور دینوی ضرورت کی خواہش کرے تو مقیم کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں کہ اس کی ضرروت فوراًپوری کرے اگر یہ مسافر خالی بے ہمت دعویدار ہے تو مقیم کو بے ہمتی کرنا اور اس کی ناممکن ضروریات پوری کرناضروری نہیں ۔اس لیے کہ یہ دنیا چھوڑنے والوں کا راستہ ہے اگر وہ دنیا کا طالب ہے تو بازار میں جاکر خرید وفروخت کرے یا کسی بادشاہ کے ہاں دریوزہ گری کرے ۔اسے دنیا سے آزاد لوگوں سے کیا واسطہ،
بصیرت
حضرت سید علی ہجوریؒ بڑے صاحبِ بصیرت بزرگ ہوئے ہیں ان کی بصیرت ان کی کتا ب سے واضح طور پر عیاں ہے کیونکہ کتاب میں جہاں کہیں اپنی رائے کا اظہار فرمایا اسے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خصوصی بصیرت سے نوازرکھا تھا۔آپ نے کشف الحجوب میں ایک مقام پر اپنے بصیرت انگیز خیالات کا یوں اظہار فرمایاہے:
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں میں سے شیخ بزرگ اور صفاتِ بشریت سے فانی حضرت ابوعبداللہ محمد بن علی الترمذی رحمتہ اللہ بھی ایک ہیں ۔آپ جملہ علوم میں کامل اور پیشواکی حیثیت رکھتے ہیں اور مشائخ محققین میں سے طریقت کے معاملات میں آپ کی بہت سی کتابوں میں آپ کی کرامات ظاہر ہیں ۔میرے نزدیک آپ بڑے باعظمت بزرگ ہیں اور میرا دل پوری طرح آپ کی محبت کاشکار ہوچکا ہے۔
میرے شیخ نے فرمایا کہ محمد ترمذ ی ایک ایسا دُریتیم ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ علم ظاہر میںآپ کی بہت سی کتب ہیں اور احادیث میں آپ کی اسانید بڑی عالی اور معتبر ہیں ۔آپ نے قرآن کریم کی ایک تفسیر لکھنی شروع کی تھی لیکن عمر نے اس کو مکمل کرنے تک وفانہ کی ۔تاہم جس قدر لکھی گئی وہ بھی اہل ِعلم کے درمیان استفادہ کے قابل سمجھی جاتی ہے۔
 حلم و نرم مزاجی 
حضرت علی ہجویری ؒ بڑے حلم الطبع تھے ۔اگر کسی کو کوئی سمجھانے کی ضرورت پیش آتی تواسے بڑے حلیمانہ ا نداز میں سمجھا تے اور اس کی اصلا ح فرمادیتے کیو نکہ تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کو بڑے بڑے سخت مزاج لوگوں سے واسطہ بھی پڑا جن کی دل آزاری والی باتوں پر انسان کو غصہ آجا تا ہے مگر آپ کبھی آپے سے باہر نہ ہوتے اگرکوئی جواباًسخت الفاظ بھی استعما ل کر لیتا تواورآپ ناراض نہ ہوتے ایک دفعہ آپ کا واسطہ ایک سخت گیر ملامتی سے پڑا لیکن آپ نے اسے بڑے اچھے انداز میں ملامت کی حقیقت کے بارے میں سمجھایا ،تاکہ اس کی اصلاح ہوجائے ۔اس واقعہ کو کشف المحجوب میں آپ نے خود ہی یوں بیان کیا ہے ۔
حکایت 
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ ایسے شخص سے واسطہ پڑا جو بظاہر خود کو شیخ طریقت ظاہر کرتا تھا اور نازیبا حرکات کر کے یہ تا ثر دیتا کہ اس نے ملامت کی را ہ اختیار کر رکھی ہے ۔حالا نکہ وہ ایسا نہیں تھا ۔
ایک مرتبہ اس نے ایک غیر شرعی حر کت کی اور عذر یہ کیا کہ میں نے ایسا ملامت کی خاطر کیا ہے ۔ایک آدمی کہنے لگا یہ کچھ نہیں ۔اس پر وہ غضب ناک ہو گیا میں نے اسے کہا ارے بھائی!اگر تو اس راہ کا راہی اور اس دعوے میں سچا ہے تو تجھے اس شخص کے انکا ر اور اعتراض پر خوش ہونا چاہیے ۔کیونکہ اس سے تیرے مسلک کی تائید اور تیر ے عقیدے کی تقویت ہوتی ہے ۔پھر یہ غصب و غصہ کس لیے ہے ؟تیر امعاملہ حقیقتاًملامت نہیں بلکہ فریب کاری کے مشابہ ہے ۔اور جو شخص لوگو ں کو کسی صحیح کا م کی دعوت دیتا ہے اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دلیل سنت کی تابعداری ہے ۔تم نے تو ظاہر ی فرض ترک کر رکھا ہے اور پھر لوگوں کو دعوت بھی دے رہے ہو تویہ بات دائرہ اسلام میں کیسے آسکتی ہے ۔
آپ نے اسے بڑی نرم مزاجی میں سمجھا یا کہ اگر تم نے ملامت کی راہ اختیا ر کرنی ہے تو پھر اس کا بہتر انداز یہ ہے کہ پہلے زمانے میں ملامت کے لیے کسی برے فعل کا ارتکاب کرنا پڑتا تھا یا خلاف عادت کوئی بات کرنا پڑتی تھی مگراس دور میں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔اس زمانے میں اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کو ملامت کریں تو وہ صرف دو رکعت نماز خشو ع و خضوع کے ساتھ ادا کرے یا کامل طور پر دین و شریعت پر کار بند ہوجائے تو ساری مخلوق اسے منافق اور ریا کار کہنے لگے ۔
(کشف المحجوب)
خودداری 
خودداری کا وصف آپ کی طبیعت میں بڑا نمایا ں تھا ۔آپ چونکہ روشن ضمیر تھے اور روشن ضمیر ہمیشہ خودداری سے کام لیتا ہے اس لیے اپنے ذاتی معاملات میں خودداری اور عزت نفس کی پاس داری کے قائل تھے خودرای کا جذبہ اطاعت الہی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ آ پ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے تھے اور ہر کام میں اس کی اطاعت کرتے تھے اس لیے آپ میں خودداری کا وصف بھی اللہ تعالےٰ نے پید ا کر رکھا تھا ۔خود دار انسان کبھی کسی کے آگے سوال نہیں کرتا اور نہ ہی کبھی دنیا داروں کے ہاں کچھ لینے کے لیے جا تا ہے ۔آپ کی ضروریا ت اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے خود پوری فرمائیں ۔اس لیے آ پ کو کبھی کسی دنیا دار کے پاس جانے کی ضرورت محسو س نہ ہوئی۔
اس کے بارے میں حضرت سید علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں فرمایا ہے کہ درویش کو چاہئے کہ کسی دنیا دار کے بلانے پر نہ جائے ۔اس کی دعوت قبو ل نہ کرے اس سے کوئی چیز طلب نہ کرے ۔یہ اہل طریقت کی توہین ہے اس لیے کہ دنیا دار درویشوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔
خلاصہ یہ کہ انسان دنیاوی سازوسامان کی کثرت سے دنیا دار نہیں بن جاتا او ر اس کی قلت سے درویش نہیں ہوجاتا ۔جو شخص فقر کو غنا پر ترجیح دیتا ہے وہ دنیا دار نہیں ہے اگر چہ بادشاہ کیوں نہ ہواورجو فقر کی فضلیت کا منکر ہے وہ دنیا دار ہے ۔اگرچہ وہ (مفلسی کی دجہ سے )مجبور کیوں نہ ہو۔دعوت میں جائے تو کسی چیز کے کھانے یا نہ کھانے پر تکلف نہ کرے ۔وقت پر جو کچھ دستیاب ہو اس پر اکتفا کرے ۔اگر صاحب دعو ت (ہم جنس ،بے تکلف )ہو تو شادی شدہ شخص کھانا گھر پر لے جا سکتا ہے اگر وہ نا محرم ہوتو اس کے گھر جانا ہی صحیح نہیں ۔کسی بھی حا ل میں (بچا ہوا ) کھانا گھر لے جانا پسندیدہ بات نہیں ۔(کشف المحجوب
تواضع وانکساری
حضرت سید علی ہجویریؒ بڑ ے منکر المزاج تھے آپ کی طبیعت فطر ی طور پر متواضع تھی ۔ آپ کے پاس آنے میں کسی پر کوئی پابندی نہ تھی ۔آپ کے پاس جو بھی آتا اس کے ساتھ بڑا عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ۔اپنا تمام کام خود کرتے تھے ۔اپنے کپڑوں میں پیوند خود لگاتے ۔عاجزی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اس لیے اولیاءاللہ میں بھی یہ وصف بڑا نمایا ں ہوتا ہے بلکہ عاجزی ہی سے وہ پہچانے جاتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔
حضرت سید علی ہجویریؒ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں سے تھے اس لیے ان کے مزاج میں بھی عاجزی انتہا درجے کی تھی ۔آپ نے چلنے پھرنے کے آداب میں عاجز ی کے بارے میں یوں اظہار خیال فرمایا ہے :
درویش کو چاہئے کہ بیداری کے عالم میں مراقبہ کی شکل میں سر جھکا کر چلے اپنے سامنے کے سوا ادھر اُدھر نہ دیکھے ۔اگر کوئی شخص سامنے آجائے تو اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کپڑے نہ سمیٹے ۔کیونکہ تما م مسلمان اور ان کے کپڑے پاک ہیں یہ بات خود بینی اور رعونت پر دلالت کرتی ہے ۔البتہ سامنے آجانے والا شخص کافر ہے اور اس کے جسم پر نجاست ظاہر نظر آرہی ہے تو اپنے آپ کو اس سے بچانا جائزہے جماعت کے ساتھ چل رہا ہوتو آگے بڑھ کر چلنے کی کوشش نہ کرے ۔اس لیے کہ زیادتی کی خواہش تکبر کی نشانی ہے اسی طرح پیچھے پیچھے بھی نہ چلے اس میں تواضع کی زیادتی کا مظاہر ہ ہے اور تواضع کا احساس خود تکبر ہے ۔دن کے وقت چپل اور جوتے نجاست سے پاک رکھے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے رات کے وقت کپڑوں کو نجاست سے پاک رکھے۔اگر کسی جماعت یا ایک درویش کے ساتھ ہم سفر ہو تو راستہ میں کسی اور کے ساتھ بات کرنے کے لیے نہ ٹھہر ے ۔اپنے ساتھیوں کو انتظار نہ کرائے بہت زیادہ آہستہ بھی نہ چلے کہ یہ متکبر لوگوں کی چال ہے زمین پر پورا قدم رکھے ۔
الغرض طالب حق کی چال ایسی ہوکہ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ کہاں جا رہے ہو؟تو وہ یقین سے کہہ سکے ۔”اَنِّی ± ذَھَبَ اِلٰی رَبِّی ± “اگر اس کی چال ایسی نہیںہے تو یہ چلنا درویش کے لیے وبال ہے اس لیے کہ صحیح قدم ،دل کی کیفیت کی صحیح ہونے کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔جس کے خیا لا ت حق پر مرکوزہیں اس کے قدم خیا لات کے تابع ہوں گے ۔
ایثار 
آپ کے ایثار کے بارے میں سوانح حیات حضرت داتا گنج بخش میں لکھا ہے کہ آپ کوئی ایسی بات نہیں کرتے تھے جس کے وہ خود عامل نہیں ہوتے تھے ۔ایثار پر جو ان کے خیالات ہیں وہ آپ نے کھل کر کشف المحجوب میں بیان کردیے ہیں ۔وہ خود بھی ایثار کے پابند تھے ۔ابتدائے عمر میں انھوں نے اپنے نفس کو راحت وآرام سے ہٹا کر حصول علم کی طرف متوجہ کیا ۔پھر جنگلوں ،بیابانوں ،شہروں اور مختلف دریا و امصار میں تجربہ ،علم اور بزرگان دین کی زیارت کے لیے پھرتے رہے تا کہ ان تجربوں اور سیاحتوں اور تحصیل علم سے جو کچھ حاصل ہوا اس سے خلق خو دفیض پہنچایا جائے ۔شادی دو دفعہ ہوئی اور دونوں دفعہ والدین کے اصرار پر ہوئی ۔تیسری دفعہ بھی آپ شادی کرسکتے تھے لیکن منعقد ہونے سے چونکہ لوگوں کو فیض پہنچانے کا زیادہ موقع نہ مل سکتا تھا اس لیے اس طر ف توجہ ہی نہیں کی ۔اس کے علاوہ محض اشاعت اسلام اور کفر کی تاریکی کو دور کرنے اور نیکی و اخلاق حسنہ کا بیج بونے اور فسق و فجور کو نیست و نا بود کر نے کے لیے غزنی سے لاہور میںاس زمانے میں آئے جب راستے موجودہ زمانے کی نسبت سخت تکلیف دہ اور زیادہ پر خطر ااور طویل تھے ۔
لاہور آکر پہلے لڑکوں کو پڑھا نا شروع کیا مگر جب اس میں خود نمائی اور حکومت کی بُو پائی تو اس سلسلہ کو ترک کر دیا ۔اور عوام الناس کی خدمت کرنے لگے ۔جس سے آپ کا روحانی فیض پھیلنے لگا ۔اوریہ آپ ہی کے فیو ض و برکات کانتیجہ ہے کہ پنجاب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد دوسر ی اقوام کے بالمقابل کہیں زیادہ ہے ۔
کشف الاسرار میں آپ نے فرمایاہے کہ اے غافل !دیکھ یہ میں اور خودی چھوڑدے مردراہ بن اور دوسرے کا حق نہ مار ۔دولت دنیا کو عذاب سمجھ اور اسے غریبوں میں لوٹا دے اگر نہ لٹایا تو قبر میں کیڑے بن کر تجھے کھائے گی اور لٹادیا تو تیری دوست بن جائے گی ۔تیرے ہا تھ پاو ¿ں تیرے دشمن ہیں ۔جب تُو مرجائے گا تو تیرے پاو ¿ں ،آنکھیں ،ہاتھ گواہی دیں گے بُری جگہ گئے تھے بُری نگا ہ ڈالی تھی ۔ دوسرے کی چیز اٹھائی تھی ۔پس کسی کی چیز کی خواہش نہ کر ۔گناہوں پر دن رات توبہ کر استا د کے حق کا خیا ل رکھ ۔مخلوقِ خدا پر رحم کر۔لقمئہ حرام مت کھا ۔بے عزتی کی جگہ قدم نہ رکھ اور عزت کرنے والے کے پاس بیٹھ۔
فرض شناسی
 حضرت سید علی ہجویری ؒ بڑے فرض شناس تھے ۔ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتے تھے ۔جس کا جتنا حق ہوتا اس کی حق تلفی نہ ہونے دیتے ۔خاص کر آپ اپنے پاس بیٹھنے والے کی ضرورت کا خاص خیال کرتے ۔ اور اپنی صحبت میں آنے والوں کو بڑا روحانی فیض پہنچایا ۔
آداب ِصحبت میں آپ نے اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے صحبت میںدوسروں کو فائدہ پہنچانے کی شرط یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا صحیح درجہ دے ۔ بڑوں کی تعظیم کرے ،اپنے جلیسوں سے خوش دلی اور بچوں سے شفقت سے ساتھ پیش آئے ۔بڑوں کو والدین کا درجہ دے ،ہم عمروں کو بھائی سمجھے اور بچوں کے ساتھ اولاد کا برتاو ¿ کرے ۔ کینہ سے بیزاری اور حسدسے پرہیز کرے ،عداوت سے بچے نصیحت کرنے میںکسی سے کوتاہی نہ کرے ۔صحبت میں ایک دوسرے کی غیبت اور خیانت نامناسب ہے اسی طرح قول و فعل میں ایک دوسرے کی تر دید بھی صیحح نہیں ۔چونکہ صحبت کا آغاز اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے اس لیے بندے کے کسی قول اور فعل پر صحبت منقطع نہ کر ے۔
میں شیخ المشائخ ابوالقاسم گرگانی ؒ سے پوچھا کہ صحبت کی شرط کیا ہے ؟آپ نے فرمایا صحبت میں اپنے حصے (حق )کو طلب کرنے لگ جاتا ہے ۔حصہ طلب کرنے والے کے لیے صحبت سے تنہائی بہتر ہے ۔اپنے حصے سے دستبردار ہوگا تو اپنے ساتھی اور ہم نشین کے حصے کی حفاظت کرسکے گا ۔اور صحبت کا اہل ثابت ہوگا۔
ادب کی پاسداری 
آپ روزمرہ کی زندگی میں ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا بڑی توجہ سے اہتمام فرماتے اور اسی بات کی آپ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میںہر خاص وعام کو تاکید فرمائی ہے کہ ادب کا خیال ضرور کرو کیونکہ اس کے بغیر کچھ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔آپ نے فرمایا ہے کہ دنیا کا کوئی کام حُسنِ ادب کے بغیر پایہ ¿ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ادب لوگوں میں مروت کی پاسدار ی ،دین میں اتباع ِسُنت اور محبت میں احترام کی حفاظت کا نام ہے ۔یہ تینوں باتیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں اس لیے کہ جس میں مروّت نہ ہوگی وہ سنت کا پیروکار نہ ہوگا اور جس میںاتباعِ سنت نہ ہوگی اس میں احترام کی پاسداری نہ ہوگی ۔معاملات میں حفظ ادب دل میں مطلوب کی تعظیم سے حاصل ہوتاہے اللہ تعالےٰ اور اس کی آیا ت کی تعظیم تقوٰی سے حاصل ہے جو شخص بے ادبی سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں کی تعظیم پامال کرتاہے اسے طریقت کی منزل میں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔طالب ِراہ سکرو غلبہ کے ہر حال میں حفظِ آدب کا پاپندہوتا ہے اس لیے ادب ان کی عادت میں شامل ہوجاتا ہے اور عادت طبیعت کی مانند ہوجاتی ہے اور کسی بھی جاندار سے تاحین ِحیات طبعی خواص کا جداہونا ممکن نہیں ۔جب تک طالبان ِراہ کا وجود اپنی جگہ پر موجود رہے گا وہ تکلف سے خواہ بلاتکلف ہر حال میں ادب کی رعایت ملحوظ رکھتے ہیں ۔صحو کی حالت میں وہ کوشش سے آداب کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ عالمِ سکر میں اللہ تعالیٰ ان کو ادب پر قائم رکھتا ہے ۔ خیال رہے کہ وہ ولی اللہ کسی حال میں بھی ادب کا تارک نہیں ہوتا اس لیے کہ محبت ادب سے پیدا ہوتی ہے اور بہتر ادب کی نشانی ہے اللہ تعالیٰ جسے کرامت عطا فرماتا ہے نشانی کے طور پر اسے آداب ِدین کی پاسداری کی توفیق عطا کرتا ہے۔

No comments:

Post a Comment