علمی مسائل کاحل
آپ علمی مسائل کا حل بڑے احسن انداز میںپیش کرتے تھے جس سے مسئلہ بالکل واضح ہوجاتا ۔آپ نے اپنی کتاب میں ایک مقام پر ایک علمی مسئلہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ ایک دفعہ میں مبتدی صوفیاءکی ایک جماعت کو مسائل سمجھا رہا تھا کہ ایک جاہل آگیا۔اس وقت اونٹوں کی زکوٰة کا مسئلہ زیر بحث تھا۔اونٹ کے تین سالہ، دوسالہ اور چارسالہ بچوں کابیان ہورہاتھا وہ جاہل مرکب تنگ آگیا اور اٹھ کر کہنے لگا کہ میرے پاس اونٹ ہی نہیں ۔بنت لبون (اونٹ کا تین سالہ بچہ )کا علم میرے کس کا م آئے گا میں نے کہا خدا کے بندے ! جس طرح زکوٰة دینے کے لیے علم کی ضرورت ہے اسی طرح زکوٰة وصول کرنے کے لیے بھی توعلم کی حاجت ہے اگر کوئی شخص تجھے بنت لبون (تین سالہ اونٹ کابچہ ) زکوٰة میں دے تو تجھے بنتِ لبون کا علم ہونا چاہئے اگر کسی شخص کے پاس مال نہ ہوا اور مال کے حصول کی بھی کوئی صور ت نہ ہو تو اس سے علم کی فرضیت سا قط تو نہیں ہوجاتی ۔غرضیکہ آپ نے علم حاصل کرنے کی ضرورت بڑے اچھے انداز میں اس پر واضح کی۔
منا ظرہ کے ذریعے علمی عظمت کا اظہار
آپ چونکہ صوفی باعمل تھے اس لیے آپ نے تصوف کی عظمت کو سربلند کرنے کے لیے بہت سے لوگوں سے مناظر ے بھی کیے تاکہ وہ راہ ِحق کو پہچان جائیں ۔ایک مناظر ے کا واقعہ آپ یوں بیان کرتے ہیں :
ایک دفعہ میں نے ہندوستان میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو تفسیر و تذکیر اور علم کا مدعی تھا اس نے اس کے معنیٰ میں مجھ سے مناظرہ کیا ۔جب میں نے اسے دیکھا تو وہ نہ فنا کو جانتا تھا اور نہ بقا کو ۔نہ قدیم حادث کے فرق کو پہچانتا تھا ایسے جاہل قسم کے لوگ بہت ہیں جو فنائے کلیت کو جائزہ جانتے ہیں حالانکہ کھلی ہٹ دھرمی اور مکابرہ ہے اس لیے کہ کسی چیز کی اجزائے ترکیبی کی فنا اور ان سے ان اجزاءکی جدائیگی جائز ہی نہیں ہے ۔میں ان جاہل خطاکاروں سے پوچھتا ہوں کہ ایسی فنا سے تمھارا کیا مدعا ہے اگر کہو کہ یہ ذات کی فنا ہے تو یہ محال ہے اور اگر یہ کہو کہ وصف کی فنا ہے تو ہم اسے جائز رکھتے ہیں کیونکہ فنا ایک علیحد ہ صفت ہے اور بقا کے ساتھ ایک اور علیحدہ صفت ہے اور ان دونو ں صفتوں سے متصف بندہ ہوگااور یہ محال ہے کہ کوئی شخص کسی جدا گانہ یعنی اپنے سوا کسی دوسرے کی صفت قائم ہو ۔
استاد کے فرمان کی تشریح
حضرت سید علی ہجویریؒ نے فرمایاہے کہ ایک مرتبہ میں نے شیخ المشائخ ابو القاسم گر گانی ؒسے طوس میں پوچھا کہ درویش کے لیے کم از کم وہ کونسی چیز ہے جس کو اختیا ر کرنے کے بعد اس پر فقر کا لفظ درست قرار پا سکتا ہے ؟
آپ نے فرمایا کہ وہ تین چیزیں ہیں ،ان سے کم نہیں :۔
(۱)لباس فقر کی سلائی اچھی طرح کرسکے ۔
(۲)سچی بات جاننے کی اہلیت رکھتا ہو ۔
(۳)اسے یہ علم ہوکہ صحیح قدم کیسے اٹھا یا جاتاہے ۔
جس وقت حضرت شیخ ؒ نے یہ بات فرمائی اس وقت میرے ساتھ درویشوں کی ایک اور جماعت بھی موجود تھی جس وقت ہم دروازے پر واپس آئے تو ان میں سے ہر ایک بجائے خو دشیخ کی بات میں اپنی طرف سے تصرف کرنے لگا ۔کچھ لوگ جہالت کی وجہ سے یہ سمجھے کہ فقر صر ف یہ ہے کہ پیوند صرف صیحح لگا سکتا ہو۔زمین پر پاﺅں مارنا جانتاہوان میں سے ہر ایک کا خیال تھا کہ میں نے شیخ کی بات بہتر طور پر سمجھی ہے ۔چونکہ شیخ کے ساتھ میرا قلبی تعلق تھا اس لیے میں نے گوارہ نہ کیا کہ ان کے فرمودات کا یہ حشر نہ ہو ۔میں نے انھیں کہا کہ آیئے تاکہ ہم سب مل جل کرحضرت شیخ کی بات کے بارے میں بات چیت کریں ۔
چنانچہ ان میں سے ہرایک شخص نے اپنا اپنا خیال ظاہر کیا ۔جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ اچھے پیوند سے مراد وہ پیوند ہے جو فقر کے لیے لگایا جائے نہ کہ زیب و زینت کے لیے جو پیوند فقر کی خاطر لگایا جاتا ہے وہ درست ہے اگر چہ بظاہر بے ترتیب کیوں نہ ہو ۔سچی بات سننے سے مراد یہ ہے کہ حال (واقعہ کے مطابق )کے کانوں سے سنے نہ کہ عقل اور پاﺅں زمین پر ٹھیک ٹھیک رکھنے سے مرادیہ ہے کہ قدم عالم وجد میں اٹھا یا جائے کھیل تماشے کی خاطر نہیں ۔
بعض لوگوں نے میری یہ تشریح حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں پہنچا دی ۔آپ نے فرمایا کہ علی حقیقت کو پہنچ گیا ہے اللہ اسے اپنے پسندیدہ بندوں میں فرمائے ۔
(کشف المحجوب )
No comments:
Post a Comment