Tuesday, December 2, 2014

حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ


حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ 

اللہ تعالیٰ نہ جانے اپنے دوستوں کی حیاتِ طیبہ کو اتنا دلکش کیوں بنا دیتا ہے کہ ہر کوئی جاں فداہے بن دیکھے ۔یہ اس لیے کہ جو کوئی اپنی حیات کو اس کی عطا کردہ توفیق سے اسی کی محبت میں دن رات اسی کی یاد سے آراستہ پیراستہ کر لیتا ہے تو وہ اس کی زندگی کو انمول بنا دیتا ہے ۔مخلوق خدا کی زبان پر اس کی شہرت کے چرچے ڈال دیتا ہے ۔دیکھ یہ خدا کا کتنا بڑا انعام ہے ۔کتنے نامو ر تاجداروں اورامیروں کے نام مٹ گئے ۔مگر اللہ اپنے دوستوں کی حیات کو ایسا جاوداں بنا دیتا ہے کہ اہل ذوق اللہ کے ان دوستوں کی ان باتوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جن کی بنا پر اللہ ان سے راضی ہوا تھا۔ہرکوئی سوچتا ہے کہ شاید اللہ والوں کی زندگی سے کوئی بات ایسی مل جائے جو زندگی کے لیے مشعل راہ بن جائے اور اس کی زندگی میں بھی وہ پاکیزگی آجائے جو اللہ کو پسند ہے ۔جس سے وہ اللہ کے ولیوں کو چاہنے والوں میں شامل ہوجائے ۔ہو سکتا ہے کہ اللہ اس پر مہربان ہوجائے اور اپنی خاص رحمت کے دھارے کا رُخ اس کی طرف پھیر دے تاکہ وہ بھی راہ نجات پا جائے آﺅ حضرت سید علی ہجویری ؒ کی حیات طیبہ کے جاوداں کو اپنے ذہنوںکی زینت بنالیں ۔

نام ونسب

آپ کا نام علی بن عثمان ہے ۔آپ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔مگر آپ حضرت سید علی ہجویری جلابی ؒ المعروف داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ کے والد ماجدکااسم گرامی عثمان بن علی ہے ۔لغت کے اعتبار سے علی کا مطلب بلند وبالاہے ایسے نام والے حضرات عموماََمعزز، نامور ، صاحب ِ جاہ و حشمت ہوتے ہیں ۔علی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے اس لیے اس نسبت کے لحاظ سے اس نام کے بے شمار فائدے ہیں ۔بعض اہل علم حضرات نے آپ کو قدوة السالکین ،امام الواصلین ،محبوب المحبین،امام المشقا لین،سید العاشقین،شیخ الکاملین کے القابات سے زینت دی ہے ۔

شجرہ نسب 

آپ نجیب الطرفین سید زادے ہیں آپ حضرت حسن ؓ کی اولاد میں سے ہیں آپ کا نسب چند واسطو ں سے حضرت امام حسن ؓ سے جا ملتا ہے اورآپ کا شجرہ نسب یوں ہے : حضرت سید علی ہجویری ؒ بن سید عثمان بن علی بن سید عبدالرحمٰن بن سید عبداللہ (شاہ شجاع ) بن سید ابوالحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زیدبن حضرت امام حسن ؓ بن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ ؛

ولادت 

آپ کی ولادت غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی آپ کی والدہ ماجدہ چونکہ اس محلے کی رہنے والی تھیں ۔اور جب آپ کی پیدائش ہوئی تو وہ اپنے والدین کے گھر میں تھیں ،یہی وجہ ہے ،صاحب سفینتہ الاولیاءنے لکھاہے کہ آپ کی پیدائش آپ کے ننھیال محلہ ہجویر میں ہوئی اسی نسبت سے آپ بعدازاں ہجویری کہلوائے ۔بعض کتب میں تذکرہ نگاروں نے آپ کی پیدائش کا سال 400ھ مطابق 1009ئ درج کیا ہے اس وقت سلطان محمود غزنوی کا دور حکومت تھا ۔
مندرجہ بالا سن ولادت کی تائید میں مورخین مندرجہ ذیل قیاس آرائی کو بطور تائید پیش کرتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ غزنوی کے دور کے ایک مور خ یعقوب غزنوی نے اپنی کتاب ”رسالہ ابدالیہ “میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی کی موجودگی میں حضرت سید علی ہجویری ؒ نے ہندوستان کے ایک فلسفی سے مناظرہ کیا اور اپنے بیان سے اعجاز اور اپنی علمی استعدا د کی بناءپر فلسفی آپ سے شکست کھا گیا۔ اس وقت آپ عین جوانی کے عالم میں تھے اور آپ کی عمر اکیس برس تھی ۔محمود غزنوی چونکہ 421ھ میں فوت ہوا۔اس لیے آپ کاسن ولادت 400ھ قرار دیاگیاہے۔آپ نے اپنی تصنیف ”کشف الاسرار“ میں اپنے وطن مالوف کا ذکر اس طرح کیا ہے ۔کہ میں نے اپنے والد ماجد سے سناہے کہ میری پیدائش غزنی کا محلہ ہجویر ہے ۔اللہ تعالیٰ اس سر زمین کو تمام آفات اور حادثات سے محفوظ رکھے ۔اور ظالم بادشاہ سے بچائے ۔میں نے وہاں وہ باتیں دیکھیں کہ لکھوں توقلم سیاہ ہوجائے اور عاجز رہے ۔

خاندان 

آپ کا خاندان غزنی کے ممتاز خاندانوں سے تھا ۔آپ کے نانا جان غزنی کی ممتاز شخصیت تھے ۔مالی اعتبار سے کافی مستحکم تھے ۔دنیوی ضروریات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھاتھا۔آپ کے ننھیال رشتہ داروں میں بہت سے افراد علم وفضل میں غزنی میں بلند مقام رکھتے تھے ۔یعنی پورا خاندان علم و عمل کا گہوار تصور کیاجاتا تھا ۔تمام خاندان پر تصوف اور روحانیت کاغلبہ تھا ۔
آپ کاسلسلہ نسب نویں پشت میں خاندا ن سادات کے جد امجد حضرت امام حسن ؓ سے ملتا ہے۔اس لیے خاندان سادات کو لوگ ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔آپ کے والد چونکہ حسنی سید تھے اس لیے لوگوں میں بڑے معزز تصور کیے جاتے تھے۔بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے ماموں غزنی کے جید اور اہل اللہ سے تھے ۔اور ہزاروں لوگ آپ کے عقیدت مند تھے ۔وہ اپنے تزکیہ نفس اور زہد وتقوی کی وجہ سے تاج الاولیاءکے لقب سے مشہور تھے ۔غرضیکہ آپ کا خاندان شرافت اور صداقت میں پورے غزنی میں بڑا شہرت یافتہ تھا ۔داراشکوہ لکھتا ہے کہ میں پہلی بار اپنے والدگرامی کے ساتھ افغانستان گیا،تو حصول برکات کے لیے ”حضرت تاج الاولیاء“ کے مزار پر بھی حاضر ہوا۔اور فاتحہ پڑھی ۔اسی داراشکوہ کا بیان ہے کہ حضرت علی ہجویری ؒ کاخاندان زہد و ورع کے لیے سارے غزنی میں ممتاز تھا۔سفینتہ الاولیا

والدہ ماجدہ 

آپ کی والدہ ماجدہ بڑی نیک عورت تھیں ۔شرافت اور دینداری میں اپنے پورے خاندان میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔آپ پردہ کی پابند تھیں آپ اپنے خاوند کی پوری اطاعت شعار تھیں۔اپنے گھرکاکام بڑی دلچسپی سے کرتیں تھیں ۔اگر کسی پریشانی سے واسطہ پڑجاتا تواللہ کے بھروسے پر اسے بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتیں ۔جوانی کے عالم میں انکی شادی سید عثمان بن علی سے ہوئی اورانھی سے آپ کی اولاد ہوئی ۔آپ اپنی اولا دکے لیے بڑی مشفق تھیں ۔آپ اپنے عزیزواقارب کے حقوق کی ادائیگی میں بڑی سلیقہ شعار تھیں ۔آپ میں مہمان نوازی اور مسکین نوازی کا جذبہ موجود تھا ۔اگر کوئی مہمان آجاتا تو حسب استطاعت خدمت کرتیں ۔آپ کو اپنے بھائی تاج الاولیاءسے خاص اُنس تھا۔آپ بڑی خوش اخلاق تھیںہمیشہ اپنے اور پرائے سے اچھا سلوک کیا ۔غرضیکہ آپ میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں ۔جو ایک خاوند گزار عورت میں ہونی چاہئیں ۔آپ کاوصال غزنی میں ہوا۔اور آپ کوآپ کے بھائی تاج الاولیاءکے مزار اقدس کے قریب دفن کیا گیا۔آپ کی قبر مبارک شیخ الاولیاءکے قبرستان میں مرجع خلائق ہے 

وطن مالوف

حضرت سید علی ہجویری کاوطن مالوف غزنی ہے ۔غزنی کا شہر اس دور میں بڑی اہمیت کا حامل تھا چونکہ یہ غزنوی خاندان کے دور میں غزنویوں کامرکز تھا اس لیے غزنی حکومت نے اسے اپنے دور میںبڑی ترقی دی ۔یہ شہر دریاے غزنی پر واقع ہے اور کابل سے قندھار جاتے ہوئے 125کلومیڑ کے فاصلے پر آتا ہے شہر کے اردگرد پہاڑہیں اور شہر کا گردونواح بڑاسر سبز اور خوبصورت ہے ۔سلطان محمود غزنوی چونکہ غزنوی کارہنے والا تھا اس لیے اسے اپنے شہر سے بڑی محبت اور دلچسپی تھی ۔ 386ھ میںجب وہ تخت نشین ہوا تو غزنی شہر کو اس کی حکومت کے باعث دنیائے اسلام کے شہروں میں ممتاز حیثیت حاصل ہوگئی ۔اسی وجہ سے غزنی اس دور میں بہت جلد علم و ادب اور تہذیب وتمدن کا مرکز بن گیا ۔غزنی میں اس کا دربار علماء،فضلاءاور صاحب کمال لوگوں کی آماجگاہ تھا اس دور کے صاحب کمال لوگوں میں ابوریحان البرونی ،ابو نصر عینی ابو منصور ثعالبی ،ابو مشکان ،ابو طیب سہل بن سلیمان صعلوکی ،ابو محمد عبداللہ بن حسین الناصحی ،ابو القاسم خواجہ احمد بن حسن مہدی ،ابو العباس ،فضل بن احمد السفرائتی ،ابو الخیر حماد،فردوسی ،عسجدی ،اسدی ،فرخی ،ابوالفتح بستی ،عنصری وغیرہ کانام ممتاز ہے ۔یہ لوگ دربار غزنی کی زینت بنے ہوئے تھے اور ہر طرف علم وادب کا فیض تھاغرضیکہ حضرت سید علی ہجویری کے زمانے میں غزنی کا شہر دنیائے اسلام کے ممتاز علماءاور فضلاءکا گہوارہ تھا۔

علم وادب کا مرکز  

محمود غزنوی نے اس شہر کو علم وادب میں بڑافروغ دیا۔اس کے دورمیںغزنی میں سینکڑوں مدرسے تھے۔جن میں تعلیم وتربیت کا خاصا انتظام تھا ۔دوراورنزدیک سے طالب علم غزنی آکرعلمی تشنگی بجھاتے تھے علوم وفنون اور علم وادب کی ان بزم آرایﺅں کے علاوہ بیشتر روحا نی مراکز بھی قائم تھے جن میں بڑے بڑے امیر وزیر اور بادشاہ بھی حاضر ہوتے تھے ۔بلکہ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ محمود غزنوی اور اس کی اولاد کا مشرق پرسب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کی سر پرستی نے فارسی علم وادب کو وہ فروغ دیا کہ جس کی مثال زمانہ پیش نہیں کر سکتا ۔اور تمام دنیا کے بہترین عالم اور فاضل اس شہر میں اکٹھے کر لیے گے ۔اس زمانے میںیہ شہر علم و ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

غزنی کی تعمیرو توسیع 

سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور میں غزنی شہر کی تعمیر و توسیع میں بہت دلچسپی لی ۔اس نے دریائے غزنی پر جو شہر سے29 کلو میڑ دور شمال کی جانب ہے ایک بند تعمیر کرایا تھا جس کی تعمیر پر لاکھوں خرچ ہوئے یہ بند خشک موسم میں غزنی کے نواحی گاﺅں کی آبپاشی کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا تھا ۔سلطان محمود غزنوی نے غزنی شہر میں 410ھ میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا اس زمانے کے لحاظ سے وہ بڑی شان و شوکت کا حامل تھا۔اور یہ اپنے دور کی بہترین درسگاہ تھی ۔بیان کیاجاتا ہے کہ سفر قنوج کے بعد جب محمود غزنوی واپس غزنی پہنچا تواس نے حکم دیا کہ مال غنیمت کی فہرست تیار کی جائے ۔جب حکم شاہی کی تعمیل ہوئی تو بقول محمد قاسم فرشتہ بیس ہزار اشرفیاں ،کئی لاکھ روپے ،پچاس ہزار لونڈی غلام ،تین سو پچاس ہاتھی ،دوسری بیش قیمت اشیاءسلطان کے ہاتھ آئی تھیں۔چنانچہ اس فتح کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہوئے ۔ایک فلک بوس مسجد تعمیر کرنے کاحکم دیا تھا۔اصل مسجد سنگ مرمر اور بیش قیمت پتھروں سے بنائی گی ۔اس میں مربع ،مسدس ،مثمن ،اور مدورسنگ مرمراورسنگ موس کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر نصب کیے گے تھے۔تاکہ دیکھنے والے عمارت کی خوبصورتی اور متانت سے متاثر ہوں۔تکمیل کے بعد اس کو بڑے سلیقے سے آراستہ کیا گیا۔قندیلیں نصب کی گئیں کثرت روشنی اور تزئین و آرائش کی وجہ سے اس مسجد کو عروسے فلک کہا جانے لگا۔سلطان محمود نے مسجد کے ساتھ بہت بڑا مدرسہ بھی تعمیر کرایااوراسی مدرسے میںعلمی اور دینی کتابوں کاکتب خانہ بھی بنوایا ۔کتب خانے میں تمام دنیا سے نایاب و نادر اور قلمی کتب منگواکر اس کی رونق کو دوبالاکر دیا۔مسجد اور مدرسے کے اخراجات کے لیے بہت سے دیہات وقف کردیے ۔سلطان کے اس شوق کو دیکھ کر امراءاور اعیان سلطنت نے غزنی میں بیشمار مساجد سرائیں ،خانقاہیں اور مدرسے تعمیر کرائے ۔عروس فلک مسجد کی تعمیر کے لیے ہندوستان سے سنگ مرمر فان کانوں سے کھدواکر یہاںمنگوایاگیااور درخت بھی مسجد کے باغ و خیابان میں لگوائے گئے۔غزنی سے تھوڑے ہی فاصلے پر دو مینار ہیںجو ایک دوسرے سے چار سو گز دور ہیںہر ایک 144فٹ بلند ہے ۔اندر سڑھیاںہیں جن پر سے انسان اوپر تک جا سکتا ہے۔میناروں کے مختلف حصوں میں نہایت خوبصورت خط کوفی میں آیات اوراشعار لکھے ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک مینار سلطان محمود نے تعمیر کروایا تھا۔اور دوسر ااس کے بیٹے سلطان مسعود نے تعمیر کروایا تھا۔مسعود سلطان نے اپنے دور حکومت میںغزنی میں ایک نیا محل باغ و کوشک تیار کرایا۔ اس کی تعمیر پر تین سال صرف ہوئے ۔1038ئ میں موسم گرما کے آغاز میں اس کی تکمیل کا جشن منایا گیا ۔بیہقی اس جشن میں شریک تھا۔اس نے اس کی بہت تعریف کی ہے ۔اس وسیع و عریض ایوان میں زربفت کے قالین بچھے ہوئے تھے اور طلائی چوکیاں رکھی ہوئی تھیں جن پرکافوری شمع روشن اور عود عنبر کے مشکب نافے مہک رہے تھے ۔سلطان کی قبا میں کپڑا کم اور سونا زیادہ ڈھلکتا تھا۔غزنی میں سلطان سبکتگین،سلطان محمود غزنوی ،سلطان مسعود غزنوی ،حکیم سنائی ،علی لالہ ،بہلول دانا،سید حسن کے مزارات موجود ہیں ۔نیز مزار تاج الاولیاءاوروالدہ اور والد حضرت علی ہجویری ؒ بھی خستہ حالت میں موجود ہیں ۔غزنی سے چند میل کے فاصلے پر سلطان محمد غوری کامزاربھی ہے ۔

No comments:

Post a Comment