Tuesday, December 2, 2014

ریاضت وعبادت


ریاضت وعبادت 


کثرت عبادت وریاضت ولایت کی جان اور بنیاد ہے ۔اس لیے قرب الٰہی اور حصول معرفت کے لیے یاد الٰہی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔ہر ولی اللہ کو اس منزل سے ضرور گزرنا پڑا ۔ لہٰذا حضرت سید علی ہجویری ؒ نے بھی اپنی زندگی میں بے پناہ ریاضت اور عبادت کی ۔اس کثرت عبادت سے آپ کو قرآن وسنت پر چلنے میں بڑی استقامت پیدا ہوئی ۔حب الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نکھار پیداہوا ۔راہ ِ طریقت میں بے پناہ ریا ضت و عبادت کر نے کے باوجود آپ کے ظاہری اعمال شرعی حدود سے کبھی متجاوز نہ ہوئے اور آپ کی ساری زندگی اتباع سنت میں گزری ۔
آپ کے مرشد باشرع صوفی تھے۔پابند ِ صوم و صلٰوة تھے ان کی غذانہایت ہی سادہ اور کم تھی ۔ایسے وہ بہت کم سوتے تھے اور سارا وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے چونکہ حضرت علی ہجویری ؒ کو بھی انھوں نے کم کھانے ،کم سونے ،کم گفتگو کرنے کی ہدایت کی اور سارا دن یاد الٰہی میں محو رہنے کی تلقین کی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔حضرت داتا گنج بخشؒ نے پابند شرع رہ کر اللہ کی بے پناہ عبادت کی۔

پابندی صلوٰة 

حضرت سید علی ہجویری ؒ نماز بڑے خشوع وخضوع سے ادا کرتے اور نماز میں آپ بالکل اللہ کی طرف متوجہ رہتے ۔اور نماز پنجگانہ کو تمام شرعی شرائط کے مطابق ادا کرتے ۔فارغ اوقات میں نوافل میں بھی کثرت کرتے ۔پابند ی نماز سے آپ میں ذکر الٰہی پر مداومت ،طہارت نفس ،عجزو انکساری اخلاص عمل جیسی خوبیاں جلوہ گر ہوئیں۔
چونکہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں ابتداءسے آخر تک سالک اور راہِ حق پایا جاتا ہے اور اسے راہِ حق کے مقامات نظر آتے ہیں۔چنانچہ مریدین کے لیے طہارت بمنزلہ توبہ ،مرشد کے ساتھ تعلق ،قبلہ شناسی مجاہدہ نفس ،قیام ذکر کی ہمیشگی ،قرات ،تواضع، رکوع ،معرفت نفس ، سجود ، تشہد ،مقام انس اور سلام دنیا سے علیحد گی اور خلاصی کی طرح ہے ۔پابندی کے بارے میںآپ نے کشف المحجوب میں آپ نے خود لکھا ہے ایک مرتبہ میں چار ماہ مسلسل سفر میںرہا ۔مگر اللہ تعالیٰ کی عطاکر دہ توفیق کے باوجود میری نماز باجماعت ترک نہ ہوئی ۔یعنی آپ نے سفر میں بھی نماز پنجگانہ با جماعت پڑھی ۔اور جب جمعہ کا دن آتا تو آپ کسی نہ کسی قصبے میںچلے جاتے اور نماز جمعہ اداکرتے ۔

روزے کی پابندی

بھوک سے چونکہ انسان میں اللہ تعالیٰ کے رزق کی قدر پیداہوتی ہے ۔صبر اور شکر کے اوصاف پیداہوتے ہیں اور نفسانی خواہشات کی اصلاح ہوتی ہے اس مقصد کے لیے آپ گاہے بگاہے فرضی روزے رکھنے کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھاکرتے تھے اس کا ذکر آپ نے کشف المحجوب میںیوں بیان کیا ہے :۔
 ایک مرتبہ میں شیخ احمد بخاری ؒکے پاس گیاتو ایک طباق حلوہ کی ان کے سامنے رکھی ہوئی تھی ۔وہ اسے کھا رہے تھے ۔میری طرف اشارہ فرمایا کہ کھاﺅ میں نے کہا میں نفلی روزے سے ہوں ،تو اس پر انھوں نے فرمایا ،کیوں روزے رکھتے ہو ؟میں نے کہا کے فلاں بزرگ کی موافقت میں روزہ رکھا ہے ۔فرمایا یہ درست نہیںہے کہ کسی مخلوق کی کوئی مخلوق موافقت کرے ۔میں نے ارادہ کیا کہ روزہ کھول دو ں ۔فرمایا جب تم نے اس کی موافقت کو ترک کرنے کا ارادہ کیا ہے تو اب میری موافقت کر لو۔کیونکہ میں بھی ایک مخلوق ہوں اور دونوں ایک سے ہیں ۔

چلہ کشی 

نفسانی خواہشات کو شرعی خدود کا تابع بنانے کے لیے مجاہدہ نفس ضروری ہے مجاہدے کی ایک صورت چلہ کشی ہے ۔لہٰذا آپ کو چلہ کشی کی راہ اختیار کرنا پڑی ۔آپ نے کس قدر چلہ کشیاں کیں ۔اس کے بارے تاریخ کے اوراق خاموش ہیں ۔مگر آپ نے اپنی چلہ کشی کا ذکر کشف المحجوب میں یوں بیان فرمایا ہے:۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں ایک باطنی الجھن میںگرفتار ہو گیا ۔ایک روحانی راز تھا جو مجھ پر منکشف نہیں ہوتا تھا ۔اس کے انکشاف کے لیے میں نے بڑی ریاضت کی مگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا ۔اس سے بیشتر بھی ایک بار ایسا ہواتھا اور میں نے اس کے حل کے لیے حضرت ابو یزید ؒ کے مزرا پر بھی چلہ کشی کی تھی ۔اس چلہ کشی کے نتیجے میں میری وہ باطبع مشکل حل ہوگئی تھی ۔چنانچہ اس بار بھی آپ کے مزار پر معتکف ہو گیا لیکن تین ماہ اعتکاف میںبیٹھے رہنے کے باوجود مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔اس دوران میں روزانہ تین مرتبہ نہاتااور تین ہی دفعہ طہارت کرتا ۔کامیابی کی کوئی صور ت نہ دیکھ کرمیںنے خراسان جانے کے لیے رخت سفر باندھا ۔راہ میں ایک گاﺅں میں قیام کیا ۔یہاں صوفیوں کاایک گروہ مقیم تھا ۔یہ رسم پرست لوگ تھے ۔انھوں نے مجھے سادہ جامہ پہنے دیکھ کر کہا کہ یہ ہماری جماعت سے متعلق نہیں۔اور واقعی میںانکی جماعت سے تعلق نہ رکھتا تھا۔انھوں نے مجھے قیام کے لیے جوجگہ دی ،خود اس سے بلند جگہ پر قیام کیا۔خود تو نہایت لذیذو نفیس غذائیں کھائیں اور مجھے ایک سوکھی روٹی کھانے کو دی ۔وہ لوگ میرامضحکہ اڑاتے ،خربوز ہ کھا کر چھلکے مجھ پر پھینکتے ۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ اے مولا کریم !اگر ان کا لباس(گودڑی) وہ نہ ہوتا جو تیرے دوستوں کا ہوتاہے تو میںان کی یہ زیادتی کسی صورت برداشت نہ کرتا باوجود یہ کہ رسم پرست صوفی مجھے ہدف طنزو ملامت بنا رہے تھے ،مگر انبیاءواولیاءکی بہت بڑی سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے میرے دل کو بڑی مسرت حاصل ہو رہی تھی اور مجھ پر یہ راز سر بستہ کھل گیا کہ بزرگان طریقت کم فہموں کی زیادتیاں کیوں برداشت کرتے ہیں اور مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ ملامت برداشت کرنا بھی روحانی مدارج کی بلندی کا زینہ ہے ۔اور اس میں بڑے مفادات ہیں ۔

سفری مشقت

سفری تکالیف اور مشقتیں بھی مجاہدے کا ایک حصہ ہیں ۔خاص کر سفر میں لباس،رہائش اور خوراک کی دقت پیش آتی ہے ۔انھیںبرداشت کرنے سے بھی تزکیہ نفس پیدا ہوتا ہے ۔حضرت سید علی ہجویری ؒ نے سفر کی بڑی مشقتیں برداشت کیں اگر آپ کو کوئی روحانی الجھن پیش آجاتی اور اس کے حل کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہ آتا تو اس کو سمجھنے کے لیے نہ رات دیکھتے نہ دن ،بس اپنے مرشد یا اپنے اساتذہ میں کسی کی طرف چل دیتے اور ان کے پاس پہنچ کر رہنمائی حاصل کرتے ،راستے میں خواہ کتنی تکلیف اٹھانی پڑے ،برداشت کرلیتے ۔
طوس کا شہر آپ کے شہر سے کافی دور ہے ۔وہاں آپ کے استاد ابوالقاسم گرگانی ؒ رہتے تھے ۔آپ اکثر یہ طویل سفر کرکے ان کے پاس آتے جاتے رہے اور سفر کی مشکلات رضائے الٰہی کے لیے برداشت کرتے رہے ۔ان میں سے ایک سفر کا ذکر آپ نے کشف المحجوب میں یوں بیان کیا ہے :

اصل مجاہدہ  

حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوا ب میں زیارت کی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے وصیت فرفائیے۔آپ نے ارشاد فرمایا :
احبس حواسک    اپنے حواس کو قابو میں رکھو۔
اپنے حواسِ خمسہ کو قابو میں رکھنااصل مجاہدہ ہے ۔تمام علوم انھیںحواسِ خمسہ کے پانچ دروازوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔حواسِ خمسہ یہ ہیں ۱۔دیکھناء۲سنناء ۳چکھنائ،۴سونگھنا اورچھونا ئ۵۔یہ حواس علم و عقل کے سالار ہیں ۔چار حواس کی جگہ مخصوص ہے مگر ایک حِس سارے جسم میں پھیلی ہوئی ہے۔آنکھ دیکھنے کا مقام ہے یہ رنگ اور جہاں کو دیکھتی ہے ۔کان سننے کا محل ہیں ۔وہ خبراو ر آواز سنتے ہیں ۔تالو ذائقہ کا محل ہے ۔وہ چکھتا ہے ۔ناک سونگھنے کا مقام ہے وہ سونگھتی ہے ،لمس یعنی چھونے کاکوئی خاص مقام نہیں ۔یہ تمام اعضاءمیں پھیلی ہوئی ہے ۔انسان کے تمام اعضاءسردی گرمی سختی اور نرمی کا برابر احسا س کرتے ہیں ۔اللہ تعالی کی طرف سے الہامی یا بد یہی علوم کے سوا کوئی ایسا علم نہیں جو حواسِ خمسہ کے انھی پانچ دروازوں سے حاصل نہ ہوتا ہو۔الہامی اور بدیہی علوم میں سے کسی غلطی کا کوئی امکان نہیں مگر حواسِ خمسہ میں صفائی بھی ہے اور کدورت بھی ۔جس طرح علم ،عقل اور روح کو حواس میں دخل ہے ۔اس طرح نفس اور خواہشات کو بھی ہے ۔گویا حواسِ خمسہ کی حیثیت عبادت و معصیت اور سعادت وشفاوت کے درمیان مشترکہ آلہ کار کی ہے ۔مثلاََکان اور آنکھ میں دوستی حق کا پہلو یہ ہے کہ وہ حق دیکھیں اور سچی بات سنیں ان میں نفس کا پہلو یہ ہے کہ وہ لغویات سنیں اور شہوت سے دیکھیں ،چھونے ،دیکھنے اورچکھنے میں حق کی دوستی یہ ہے کہ حکم الٰہی میں تابع داری کریں ۔ان میں نفس کا پہلو یہ ہے کہ شریعت کے خلاف چلیں ۔(کشف المحجوب )

خرقہ خلافت

حضرت سید علی ہجویری ؒ جب کثرت زہد و تقوی ،ریاضت و عبادت ،محب مرشد سے حب الٰہی اور عشق رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے آراستہ ہو گے اور سلوک کی تمام منازل عبور کرکے ولی کامل کے درجہ پر پہنچ گئے تو آپ کے مرشد نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور خدمت دین کا حکم دیا۔

سیر وسیاحت 

حضرت سید علی ہجویری ؒ کا عالم شباب کازیادہ حصہ دور و نزدیک کے بہت سے بلاد ِ اسلامیہ کی سیر و سیاحت میں گزرا ۔اس طویل سیر و سیاحت سے آپ کو بے پناہ علمی و روحانی فوائد حاصل ہوئے ۔دوران سفر بے پناہ اولیاءاور مشائخ کرام سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔کئی علماءاور فضلاءسے بھی ملاقاتیں ہوئیں ۔تصوف ، شریعت اور طریقت کے موضوعات پر ان سے مفید باتیں ہوئیں ۔سلوک کی منازل میں کشادگی ہوئی ۔کئی مقامات پر اسراو رموز کی عقدہ کشائیاں ہوئیں ۔غر ضیکہ آپ کے لیے سیر وسیاحت ظاہر ی و باطنی علم کے حصول کے لیے بڑی مفید ثابت ہوئی ۔

سفر میں اتباع سنت

حضرت سید علی ہجویری ؒ نے سفر میں جسے سب سے ضروری بات قرار دیا ہے وہ اتباع سنت ہے ۔آپ فرماتے ہیں مسافر پر سفر کے دوران لازم ہے کہ وہ ہمیشہ سنت کی پیروی کرے ۔کسی مقیم کے پاس پہنچے تو اس کے سامنے عزت و احتر ام سے جائے اسے سلام کہے ۔پھر بایا ں پاﺅںجوتی سے نکالے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے اور جب جوتا پہنتے تو پہلے دایاں پاﺅں جوتے میں ڈالے ۔اسی طرح پاﺅں دھوئے تو پہلے دایاں پھر بایاں دھوئے ۔دو رکعت نماز تحیت ادا کرے ۔پھر درویشوں کے حقوق یعنی خدمت کی بجاآوری میں مشغول ہو ۔کسی حال میں مقیم حضرات پر اعتراض نہ کرے ۔نہ اپنے برتاﺅ میں کسی کے ساتھ زیادتی کرے اسی طرح حاضرین کے سامنے اپنے سفرکی داستانیں ،علم کی باتیں یا حکایات وغیرہ بھی شروع نہ کردے ۔کیونکہ یہ چیزیں رعونت ظاہر کرتی ہیں ۔اللہ کے لیے سب کی باتیں برداشت کرے اور ان کی زیادتی پر صبر کرے ۔اس میں بے شمار برکتیں ہیں۔اگر مقیم یا ان کے خادم اس پر کوئی حکم چلائیں یا اسے کسی کے سلام یا کسی کی زیارت کی دعو ت دیں تو جہاں تک ہو سکے انکار نہ کرے ۔مگر دل میں ا ہل د نیا کی خاطر داری کو برا سمجھتارہے ان بھائیوں کے افعال کی توجہیہ اور تاویل کر لے ۔اپنی کسی نارواضرورت کے ذریعے انھیں تکلیف میں مبتلا نہ کرے ۔اپنی ذاتی ضرورت یا نفس کی راحت کی خاطر انھیں بادشاہوں کے دربار میں نہ گھسیٹے ۔الغرض مسافر ہو یا مقیم ،ہر حال میں صحبت کے دوران رضائے الٰہی مد نظر رکھیں اور ایک دوسر ے کے بارے میں نیک گمان رکھیں ایک دوسرے کی برائی نہ کریں۔پیٹھ پیچھے غیبت نہ کریں ۔ایسی بات طالب راہ کے حق میں بری ہے ۔طالب حق کے لیے مخلوق کی باتیں کرنا بالخصوص معیوب ہےں۔اس لیے کہ ارباب حقیقت فعل کی شکل میںفاعل کو دیکھتے ہیں ۔
آپ نے اپنے دور میں سفری سہولتیں کم ہونے کے باوجود بہت سے اسلامی ممالک کا سفر کیا۔ان ملکوں میں افغانستان ،ترکستان ، ایران ،عراق ، شام ،حجاز اور پاک وہند کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان ممالک کی نشاندہی آپ کی کتاب کشف المحجوب سے ہوتی ہے ۔آپ کو مختلف مقاما ت پر جو باتیں پیش آئیں ان کا ذکر آپ نے اپنی کتاب میںمتعلقہ عنوان کے تحت ذاتی مشاہدہ و تجربہ کی غرض سے کیاہے ۔اور انھی درج شدہ واقعات سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپ نے فلاں فلاںجگہ کی سیروسیاحت کی ۔اس کے علاوہ تذکروں سے بھی بعض شہروں کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے وہاں کا بھی سفر کیا۔غر ض یہ کہ جن علا قوںاور شہر وں میں تشر یف لے گئے ان میںطوس،سرخس،نسا،آذربائیجان،قہستان،طبرستان،مرو،نیشاپور‘ بسطام‘ خراسان‘ ماوراءالنہر‘ بخارا،فرغانہ،سمر قند،خوزستان،اہواز،فارس،کرمان ،جبل لکام،د مشق، وادی بیت الجن،بغداد،کوفہ،بصرہ،مہنہ،رملہ،ترکستان،اور شما لی ہند شمار ہو تے ہیں۔ان علا قوں میں بہت سے علماء،فضلا،مشائخ کرام اور اولیاءاللہ سے آپ کی ملاقاتیں ہو ئیں ۔دوران سیر وسیا حت جن حضرات سے آپ کو ملا قا ت کا شرف حاصل ہوا ان میں آپ کے مر شد حضر ت ابوالفضل ختلی ؒ،حضرت ابو القاسم گرگانی ؒحضرت ابو العبا س احمدبن محمد قصاب ،حضرت محمدبن علی داستانی،حضرت ابوالقا سم عبدالکریم بن ہوازن قشیری ،حضرت احمد بن محمد اشقانی ،حضرت احمد مظفر ،خواجہ رشید مظفر ،خواجہ شیخ احمد حمادی سرخی ؒ ،خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجو دینی ، شیخ ابو عبداللہ جنیدی ،شیخ ابوالعباس دامغانی ،شیخ ابو طاہر مکشوف ،شیخ ابوالقاسم سدی،شیخ ابو مسلم ہروی ،شیخ ابو الفتح شیخ ابوطالب ،شیخ ابو الحسن علی بن بکران ،شیخ ابوالحسن ابن سالیہ ،خواجہ علی بن دالحسین السیر کانی ،شیخ احمد بن شیخ خرقانی ،شیخ محمد زکی بن العلائ،اور شیخ احمد نجار ثمر قندیؒ کے اسماءگرامی قابل ذکرہیں ۔
کشف المحجوب میں آپ نے ان بزرگوں کے علم وفضل اور زہد وتقوی کاذکر کہیں کہیں بڑی محبت اور عقیدت سے کیااور بعض باتوں میں ان کی روحانی اور علمی فضیلت کا اعتراف بھی کیا ہے ۔مندرجہ بالا شیو خ کے بعض واقعات بڑے دلچسپ اور نصیحت آموز ہیں۔جن سے ظاہری و باطنی رہنمائی ہوتی ہے ۔


No comments:

Post a Comment