بیعت اور خدمتِ مُرشد
طریقت میں حضرت علی ہجویری ؒ کاتعلق سلسلہ جنیدیہ سے ہے ۔اس سلسلہ طریقت کے شیخ المشائخ اور شریعت کے امام الائمہ حضرت جنید بغدادی ؒہیں ۔بہت سے صوفی روحانیت میں اس سلسلہ سے مستفید ہوئے ہیں ۔مسلک جنیدیہ تمام مسالک میں معروف ترین ہے۔آپ نے فرمایا کہ ہمارے تمام شیوخ اوراکابرین اسی سلسلہ جنیدیہ سے منسلک ہیں۔
بیعت
معرفت کے اسرارو رموزمرشد کامل کی بیعت کے بغیر نہیں کھلتے اس لیے بزرگان دین نے ولایت اور حصول معرفت کے لیے بیعت کو لازم قرار دیا ہے حضرت سید علی ہجویری ؒ نے جب ظاہری دینی علوم کو مکمل طور پر حاصل کر لیا تو اب آپ کے دل میں تزکیہ نفس کے لیے راہ ِ طریقت پر گامزن ہونے کا شوق پیدا ہوا۔آپ کے زمانے میں حضرت ابوالفضل محمد حسن ختلی ؒ کو شیخ کامل اور ولایت کابلند درجہ حاصل تھاوہ علوم ظاہری و باطنی میں یکتائے زمانہ تھے اور سلسلہ جنیدیہ کے شیوخ میں سے ولی کامل تسلیم کیے جاتے تھے اپنے ہم عصر بزرگوںمیں انھیں نمایاں مقام حاصل تھا۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ جس دور میں سیرو سیاحت میں مصروف تھے تو ایک مرتبہ سفر کرتے ہوئے ملک شام پہنچے ۔وہاں آپ کی ملاقات حضرت سید ابوالفضل ختلی ؒ سے ہوئی آپ ان کی عارفانہ اور عالمانہ گفتگو سے بڑے متاثر ہوئے انھوں نے جب حضرت علی ہجویری ؒ کو نظر باطن سے دیکھا تو انھیں آپ کی پیشانی میں نور ولایت محسوس ہوا ۔آخر آپ نے ان کے دستِ حق پر بیعت کرلی ۔اس طرح آپ راہِ سلوک کے طالب بن کر سلسلہ جنیدیہ سے وابستہ ہو گئے۔
سلسلہ طریقت
آپ کا شجرہ طریقت گیارہ واسطوں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں ملتا ہے حضرت سید علی ہجویری ؒ مرید حضرت ابوالفضل محمدابن حسن ختلی ؒوہ مرید حضرت شیخ ابوالحسن علی الحصری کے ،وہ مرید حضرت ابو بکر شبلی کے ؒ،وہ مرید حضرت جنید بغدادی کے ،وہ مرید حضرت سری سقطی ؒ کے ،وہ مرید حضرت معروف کرخی ؒ کی ،وہ مرید حضرت داﺅد طائی کے ،وہ مرید حضرت حبیب عجمی کے ، وہ مرید خواجہ حسن بصریؒ کے ،اور وہ میرید حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ،اوروہ تربیت یافتہ سید الانبیاءمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے ۔
خدمت مُرشد
کشف المحجوب میں حضرت علی ہجویری ؒ کی مختلف مقامات پر اپنے مرشد کی عظمت شان میں بیان کردہ روایات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ کو اپنے مرشد سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی ۔اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں اپنے مرشد کی بے پناہ خدمت کی اوران کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا ۔آپ نے صحبت مرشد سے مستفید ہونے کے لیے زندگی کا کچھ حصہ ان کی خدمت میں گزارا ۔اس کے علاوہ جب کبھی روحانی رہنمائی کی ضرورت ہوئی تو آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور ان سے جو بات پوچھناہوتی پوچھ لیتے ۔اگر چہ آپ نے کچھ دیر مشائخان ِطریقت سے بھی اکتساب فیض کیا مگر روحانیت میں جو بلند مقام آپ کو حاصل ہواوہ اپنے مرشد کی دوعاﺅں اور نظر شفقت ہی بدولت ہوا ۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ نے اپنے مرشد کے ساتھ کچھ سفر بھی کیے جن کا ذکر انھوں نے کشف المحجوب میں بھی کیا ہے غرضیکہ جب بھی آپ ان کے ساتھ کہیں جاتے تو سفر میں جو سامان بھی ہوتااسے خود اٹھاتے لیکن سامان تھوڑا ہی ہوتا تھاچونکہ آپ کے مرشد توکل علی اللہ کے از حد قائل تھے اس لیے عبادت کے لیے وہی سامان لیتے جس کی از حد ضرورت ہوتی ۔
مرشد کے ساتھ سفر کا ایک واقعہ
حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے مرشد کے ہمراہ آذربائیجان کے علاقے سے گزررہا تھا میں نے دیکھا کہ دو تین گدڑی پوش فقراءایک گندم کے کھلیان پر اپنے خرقے کے دامن پھیلائے کھڑے ہیں تاکہ کاشتکار اس میں گندم ڈال دیں ۔مرشد کی نگاہ ان پر پڑی تو پکار اٹھے ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے میں نے کہا حضور !یہ لوگ کیوں اس مصیبت میں گرفتارہوئے ۔اور مخلوق کے لیے باعث ذلت بنے ؟آپ نے فرمایا ان کے پیروں کو مرید بڑھانے کا حرص ہے اور انھیں متاع دنیا جمع کرنے کی لالچ۔اورحرص کوئی دوسری حرص سے بہتر نہیں ہے۔اور بے حقیقت دعوی پروری نہیں تو اور پھر کیا ہے ۔؛کشف المحجوب
حضرت ابوالفضل ختلی
آپ حضرت سید علی ہجویری ؒ کے روحانی پیشوا ہیں ،آپ کا شمار جلیل القدر اولیا ءاور صُوفیہ میں ہوتا ہے ۔آپ زہدةالعرفاء،گنج حقیقت ،برہان الطریقت ،حجةالاولیاءاور مظہر عزلت تھے ۔آپ عارف کامل ہونے کے ساتھ قرآن حدیث کے زبردست عالم تھے آپ کو تفسیر ،روایات اور حدیث پر کامل عبورحاصل تھا۔زہد و تقٰوی میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ عابدوں کے شیخ تھے ۔اور روحانیت میں اپنے وقت کے اوتادوں میں سے تھے بلکہ آپ ان کی عزت تھے ۔
زُہدو تقویٰ
تصوف میں سلسلہ جنیدیہ سے نسبت رکھتے تھے اور خواجہ حصری ؒ کے مرید و خلیفہ تھے ۔آپ ختلان کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو ختلی کہاجاتا ہے ۔ شیخ ابو عمر قزوینی ؒاور ابو الحسن سالیہ ؒ آپ کے ہم عصروں میں سے تھے ۔آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملک شام کے مشہور شہر دمشق کے قریب وادی بیت الجن میں بسر کیا ۔ وادی بیت الجن دمشق اور بانیار کے درمیان ایک گاﺅں ہے ۔آپ نے زہد اور چلہ کشی کے لیے زندگی کا کچھ حصہ تنہائی میں لسکام نامی پہاڑپر بھی گزارا۔ایک روایت میں ہے کہ آپ ساٹھ سال تک گوشہ نشینی میں رہے ۔یہاں تک کہ لوگ آپ کانام تک بھی بھول گئے۔گوشہ نشینی کے بعد آپ نے کچھ عرصہ سیروسیاحت میں بھی بسر کیا اور کئی مقامات پر مظاہر فطرت کے آثار بھی دیکھے
معمولاتِ مرشد
حضرت علی ہجویری ؒ نے اپنے مرشد کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ صوفیوں کے ظاہری لباس اور ان کی رسوم کے پابند نہ تھے بلکہ اہل رسوم اولیاءکے ساتھ آپ کا رویہ سخت تھا۔آپ مزید کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ ہیبت اور دبدبے والا انسان نہیں دیکھا ۔
آپ خودبھی کم غذاکھاتے تھے اور اپنے عقیدت مندو ں کو بھی کم کھانے کی تاکید فرماتے تھے ۔اسی طرح سوتے بھی کم تھے اور مریدوں کو بھی کم خوابی کی ہدایت فرمایاکرتے تھے۔بہت کم گفتگو کیاکرتے تھے اور مریدوں کو بھی کم گوئی کی تاکید فرماتے تھے ۔لباس بھی معمولی زیب تن فرماتے تھے ۔عام طور پر گودڑی نہیں پہنتے تھے ایک بار ایک جامہ پہنا۔وہی جامہ برسوں آپ کے جسم پر رہا۔اسی کو دھو کر زیب تن فرمالیتے تھے ۔ جب وہ کہیں پر سے پھٹ جاتا اس میں پیوندلگالیتے کہتے ہیں کہ اس جامے میں اتنے پیوند لگے کہ اصل کپڑے کا نام ونشان باقی نہ رہا۔
مرشد کامل کی کرامت
حضرت شیخ علی ہجویری ؒ کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے مرشد کامل کے ہاتھ دھلا رہاتھا ۔میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جب تمام امور تقدیراور قسمت سے وابستہ ہوتے ہیں تو پھر آزادوں کو پیروں اور پیشواﺅں کا غلام کس واسطے بناےا جاتا ہے ۔کیا صرف پیروں کی کرامات کی امید پر ۔حالانکہ میرے دل میں یہ خیال اور وسوسہ ہی پیداہواتھا اور یہ بات میں نے زبان سے نہیں نکالی تھی ۔مگر پیر روشن ضمیر نے اپنے کشف سے یہ بات معلوم فرمالی اور کہنے لگے ۔”بیٹا!جو کچھ تیرے دل میں خیال پیداہوا ہے ۔مجھے معلوم ہوگیا۔جب اللہ تعالیٰ کسی کو تاج و تخت دینا چاہتاہے تو اس کو توبہ کرنے کی توفیق فرمادیتا ہے اور وہ ایک مہربان دوست کی خدمت کرنے لگتاہے ۔اسی خدمت کے نتیجہ میں اس کی کرامت کا اظہار ہوتا ہے ۔
اطاعت مرشد کا واقعہ
حضرت ابو الفضل ختلی ؒ نے خود فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ اولیاءاللہ کی ایک جماعت جنگل میں جمع تھی ۔میرے پیر حصری ؒ مجھے ساتھ لے گئے ۔اس جماعت کے لوگ اونٹوں پر سوار چلے آرہے تھے لیکن شیخ حصری ؒ ان میں سے کسی کی طرف توجہ نہیں فرمارہے تھے ۔انھی لوگوں میں ایک شخص نظر آیا جو پھٹی جوتیا ں اورٹوٹاہواعصا ہاتھ میں لیے ہوئے تھا ۔جس کے پاﺅں بے کار تھے ۔ننگے سر ،بہت ہی لاغر اور دُبلاتھا۔اس کو دیکھ کر شیخ حصر ی ؒ فوراََاپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اوراس کو لا کر ایک بلند جگہ پر بٹھایا ۔مجھے یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا ۔بعد میں شیخ سے میں نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے اولیاءمیں ایک ایساولی تھا جو خود ولایت کے تابع نہیں بلکہ ولایت خود اس کے تابع ہے اور وہ کرامت اور بزرگی کی طرف مطلقاً التفات نہیں کرتے ۔
تصرف کا واقعہ
حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز میرے پیرومرشد نے ،اللہ ان سے راضی ہو ،بیت الجن سے دمشق کا سفر اختیار کیا۔میں ان کے ساتھ تھا۔ بارش آگئی اور ہم کیچڑ میں چلتے ہوئے خاصی دشواری محسوس کر رہے تھے ۔اچانک میری نظر پیرومرشد پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے جوتے کپڑے اور پاﺅںبالکل خشک تھے گویا بارش ہوہی نہ رہی تھی ۔میں نے ان سے دریافت کیا ،تو فرمایا ، ہاں !جب سے میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ہر قسم کے وہم اور شبہ کو دور کردیا ہے اور دل کو حرص و لالچ کی دیوانگی سے محفوظ کر لیا ہے ،تب سے اللہ تعالیٰ نے میرے پاﺅں کو کیچڑ سے بھی محفوظ کر رکھا ہے ۔
اقوال
آپ کاارشاد ہے کہ دنیا ایک دن کی مانند ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں یعنی ہم دنیا سے نہ کچھ لیتے ہیں اور نہ اس کے فریب میں آتے ہیں ۔اس لیے کہ ہم نے اس کے نقصانات دیکھ لیے ہیں اور اس کے حجابات سے آگاہ ہو چکے ہیں اس لیے ہم نے اس سے رو گردانی کر لی ہے ۔آپ کا ایک اور ارشاد ہے کہ کرامت کا ظاہر نہ کرنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی ولی اپنی ولایت کو ظاہر کر دے تو اس کے اظہار سے ولی کو نقصان نہیں پہنچتا ۔
حضرت ابوالفضل ختلی ؒ اپنے مریدوں کو کم بولنے اور کم سونے کی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے ۔ آپ فرمایاکرتے تھے کہ جب تک نیند کا شدید غلبہ نہ ہواس وقت تک ہر گز مت سو۔اور جب نیند سے بیدار ہو تو دوبارہ سونے کی کوشش نہ کرو ۔
حضرت علی ہجویر یؒ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے انُس ناممکن ہے ۔اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے اے محبوب !جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں ،تو میں نزدیک ہوں ۔
بے شک جو میرے بندے ہیں۔
میرے بندوں سے فرماﺅ
اے میرے بندو!آج نہ تم پر خوف ہے نہ تم کو غم ۔
جب بندہ فضل خدا وندی کا مشاہدہ کرتاہے تو اسکے ساتھ دوستی اختیار کرتاہے دوستی اُنس سے پیداہوتا ہے ۔اس لیے کہ دوست سے ہیبت کھانا بیگانگی اور اس کے ساتھ اُنس یگانگی کی علامت ہے انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنے منعم سے اُنس ہوتاہے اللہ تعالیٰ کے ہم پر اتنے انعامات ہیں اور اس کی ہمیں وہ معرفت حاصل ہے کہ ہم وہاں ہیبت کی بات تک نہیں کرسکتے ۔
آپ کا ارشاد ہے کہ میں اس مدعی پر تعجب کرتا ہوں کہ جو یہ کہتاہے کہ میں تارک دنیا ہوں اور حال یہ ہو کہ ہر وقت کھانے کی فکر میں ہو ۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ میرے مرشد فرماتے ہیںکہ سماع پیچھے رہ جانے والوں کا توشہ ہے ،جو منزل پر پہنچ گئے ہوں انھیں سماع کی ضرورت نہیں ۔اس لیے کہ منزلِ وصال میں کچھ سننے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔سنی کوئی خبر جاتی ہے اور خبر ہمیشہ غائب کی ہوتی ہے ۔وصال میسر آئے تو غائب کا سوال ہی نہیں پید ا ہوتالہذایہاں سماع کی بات سرے سے بے فائدہ ہے ۔
وصال مرشد
حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ جب مرشد حضرت ابو الفضل ختلی ؒ کی وفات کا وقت آیا تو اس وقت آپ بیت الجن میں تھے ۔بیت الجن ”دمشق اوربانیار “کے درمیان گھاٹی پر واقع گاﺅں ہے ۔آپ کا سر میری گود میں تھا ۔فطرت انسانی کے مطابق اس وقت میرا دل ایک سچے دوست کی جدائی پر رنجیدہ تھا۔
آپ نے فرمایا بیٹا !میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کر لیا تو ہر قسم کے رنج وتکلیف سے بچ جاﺅ گئے ۔یاد کھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ کا پیداکردہ ہے ،خواہ وہ نیک ہو یا بد ،تیرے لیے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اورنہ ہی دل میں اس پر معترض ہو ۔ اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جان بحق تسلیم ہوگئے ۔ کشف المحجوب
مندرجہ بالا بیا ن کے مطابق آپ کا وصال وادی بیت الجن میں ہو ااور آپ کو وہیں دفن کیا گیا ۔
No comments:
Post a Comment