Tuesday, December 2, 2014

Hazrat Syed Ali Hujwiri (R-A)

Hazrat Ali Bin Usman Julabi Hujwiri (R-A)
the history  in Urdu of Hazrat Ali Bin Usman AlJulabi Al Hujwiri (R-A) written by Allam Alam Faqri 


حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ


حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ 

اللہ تعالیٰ نہ جانے اپنے دوستوں کی حیاتِ طیبہ کو اتنا دلکش کیوں بنا دیتا ہے کہ ہر کوئی جاں فداہے بن دیکھے ۔یہ اس لیے کہ جو کوئی اپنی حیات کو اس کی عطا کردہ توفیق سے اسی کی محبت میں دن رات اسی کی یاد سے آراستہ پیراستہ کر لیتا ہے تو وہ اس کی زندگی کو انمول بنا دیتا ہے ۔مخلوق خدا کی زبان پر اس کی شہرت کے چرچے ڈال دیتا ہے ۔دیکھ یہ خدا کا کتنا بڑا انعام ہے ۔کتنے نامو ر تاجداروں اورامیروں کے نام مٹ گئے ۔مگر اللہ اپنے دوستوں کی حیات کو ایسا جاوداں بنا دیتا ہے کہ اہل ذوق اللہ کے ان دوستوں کی ان باتوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جن کی بنا پر اللہ ان سے راضی ہوا تھا۔ہرکوئی سوچتا ہے کہ شاید اللہ والوں کی زندگی سے کوئی بات ایسی مل جائے جو زندگی کے لیے مشعل راہ بن جائے اور اس کی زندگی میں بھی وہ پاکیزگی آجائے جو اللہ کو پسند ہے ۔جس سے وہ اللہ کے ولیوں کو چاہنے والوں میں شامل ہوجائے ۔ہو سکتا ہے کہ اللہ اس پر مہربان ہوجائے اور اپنی خاص رحمت کے دھارے کا رُخ اس کی طرف پھیر دے تاکہ وہ بھی راہ نجات پا جائے آﺅ حضرت سید علی ہجویری ؒ کی حیات طیبہ کے جاوداں کو اپنے ذہنوںکی زینت بنالیں ۔

نام ونسب

آپ کا نام علی بن عثمان ہے ۔آپ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔مگر آپ حضرت سید علی ہجویری جلابی ؒ المعروف داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ کے والد ماجدکااسم گرامی عثمان بن علی ہے ۔لغت کے اعتبار سے علی کا مطلب بلند وبالاہے ایسے نام والے حضرات عموماََمعزز، نامور ، صاحب ِ جاہ و حشمت ہوتے ہیں ۔علی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے اس لیے اس نسبت کے لحاظ سے اس نام کے بے شمار فائدے ہیں ۔بعض اہل علم حضرات نے آپ کو قدوة السالکین ،امام الواصلین ،محبوب المحبین،امام المشقا لین،سید العاشقین،شیخ الکاملین کے القابات سے زینت دی ہے ۔

شجرہ نسب 

آپ نجیب الطرفین سید زادے ہیں آپ حضرت حسن ؓ کی اولاد میں سے ہیں آپ کا نسب چند واسطو ں سے حضرت امام حسن ؓ سے جا ملتا ہے اورآپ کا شجرہ نسب یوں ہے : حضرت سید علی ہجویری ؒ بن سید عثمان بن علی بن سید عبدالرحمٰن بن سید عبداللہ (شاہ شجاع ) بن سید ابوالحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زیدبن حضرت امام حسن ؓ بن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ ؛

ولادت 

آپ کی ولادت غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی آپ کی والدہ ماجدہ چونکہ اس محلے کی رہنے والی تھیں ۔اور جب آپ کی پیدائش ہوئی تو وہ اپنے والدین کے گھر میں تھیں ،یہی وجہ ہے ،صاحب سفینتہ الاولیاءنے لکھاہے کہ آپ کی پیدائش آپ کے ننھیال محلہ ہجویر میں ہوئی اسی نسبت سے آپ بعدازاں ہجویری کہلوائے ۔بعض کتب میں تذکرہ نگاروں نے آپ کی پیدائش کا سال 400ھ مطابق 1009ئ درج کیا ہے اس وقت سلطان محمود غزنوی کا دور حکومت تھا ۔
مندرجہ بالا سن ولادت کی تائید میں مورخین مندرجہ ذیل قیاس آرائی کو بطور تائید پیش کرتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ غزنوی کے دور کے ایک مور خ یعقوب غزنوی نے اپنی کتاب ”رسالہ ابدالیہ “میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی کی موجودگی میں حضرت سید علی ہجویری ؒ نے ہندوستان کے ایک فلسفی سے مناظرہ کیا اور اپنے بیان سے اعجاز اور اپنی علمی استعدا د کی بناءپر فلسفی آپ سے شکست کھا گیا۔ اس وقت آپ عین جوانی کے عالم میں تھے اور آپ کی عمر اکیس برس تھی ۔محمود غزنوی چونکہ 421ھ میں فوت ہوا۔اس لیے آپ کاسن ولادت 400ھ قرار دیاگیاہے۔آپ نے اپنی تصنیف ”کشف الاسرار“ میں اپنے وطن مالوف کا ذکر اس طرح کیا ہے ۔کہ میں نے اپنے والد ماجد سے سناہے کہ میری پیدائش غزنی کا محلہ ہجویر ہے ۔اللہ تعالیٰ اس سر زمین کو تمام آفات اور حادثات سے محفوظ رکھے ۔اور ظالم بادشاہ سے بچائے ۔میں نے وہاں وہ باتیں دیکھیں کہ لکھوں توقلم سیاہ ہوجائے اور عاجز رہے ۔

خاندان 

آپ کا خاندان غزنی کے ممتاز خاندانوں سے تھا ۔آپ کے نانا جان غزنی کی ممتاز شخصیت تھے ۔مالی اعتبار سے کافی مستحکم تھے ۔دنیوی ضروریات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھاتھا۔آپ کے ننھیال رشتہ داروں میں بہت سے افراد علم وفضل میں غزنی میں بلند مقام رکھتے تھے ۔یعنی پورا خاندان علم و عمل کا گہوار تصور کیاجاتا تھا ۔تمام خاندان پر تصوف اور روحانیت کاغلبہ تھا ۔
آپ کاسلسلہ نسب نویں پشت میں خاندا ن سادات کے جد امجد حضرت امام حسن ؓ سے ملتا ہے۔اس لیے خاندان سادات کو لوگ ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔آپ کے والد چونکہ حسنی سید تھے اس لیے لوگوں میں بڑے معزز تصور کیے جاتے تھے۔بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے ماموں غزنی کے جید اور اہل اللہ سے تھے ۔اور ہزاروں لوگ آپ کے عقیدت مند تھے ۔وہ اپنے تزکیہ نفس اور زہد وتقوی کی وجہ سے تاج الاولیاءکے لقب سے مشہور تھے ۔غرضیکہ آپ کا خاندان شرافت اور صداقت میں پورے غزنی میں بڑا شہرت یافتہ تھا ۔داراشکوہ لکھتا ہے کہ میں پہلی بار اپنے والدگرامی کے ساتھ افغانستان گیا،تو حصول برکات کے لیے ”حضرت تاج الاولیاء“ کے مزار پر بھی حاضر ہوا۔اور فاتحہ پڑھی ۔اسی داراشکوہ کا بیان ہے کہ حضرت علی ہجویری ؒ کاخاندان زہد و ورع کے لیے سارے غزنی میں ممتاز تھا۔سفینتہ الاولیا

والدہ ماجدہ 

آپ کی والدہ ماجدہ بڑی نیک عورت تھیں ۔شرافت اور دینداری میں اپنے پورے خاندان میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔آپ پردہ کی پابند تھیں آپ اپنے خاوند کی پوری اطاعت شعار تھیں۔اپنے گھرکاکام بڑی دلچسپی سے کرتیں تھیں ۔اگر کسی پریشانی سے واسطہ پڑجاتا تواللہ کے بھروسے پر اسے بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتیں ۔جوانی کے عالم میں انکی شادی سید عثمان بن علی سے ہوئی اورانھی سے آپ کی اولاد ہوئی ۔آپ اپنی اولا دکے لیے بڑی مشفق تھیں ۔آپ اپنے عزیزواقارب کے حقوق کی ادائیگی میں بڑی سلیقہ شعار تھیں ۔آپ میں مہمان نوازی اور مسکین نوازی کا جذبہ موجود تھا ۔اگر کوئی مہمان آجاتا تو حسب استطاعت خدمت کرتیں ۔آپ کو اپنے بھائی تاج الاولیاءسے خاص اُنس تھا۔آپ بڑی خوش اخلاق تھیںہمیشہ اپنے اور پرائے سے اچھا سلوک کیا ۔غرضیکہ آپ میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں ۔جو ایک خاوند گزار عورت میں ہونی چاہئیں ۔آپ کاوصال غزنی میں ہوا۔اور آپ کوآپ کے بھائی تاج الاولیاءکے مزار اقدس کے قریب دفن کیا گیا۔آپ کی قبر مبارک شیخ الاولیاءکے قبرستان میں مرجع خلائق ہے 

وطن مالوف

حضرت سید علی ہجویری کاوطن مالوف غزنی ہے ۔غزنی کا شہر اس دور میں بڑی اہمیت کا حامل تھا چونکہ یہ غزنوی خاندان کے دور میں غزنویوں کامرکز تھا اس لیے غزنی حکومت نے اسے اپنے دور میںبڑی ترقی دی ۔یہ شہر دریاے غزنی پر واقع ہے اور کابل سے قندھار جاتے ہوئے 125کلومیڑ کے فاصلے پر آتا ہے شہر کے اردگرد پہاڑہیں اور شہر کا گردونواح بڑاسر سبز اور خوبصورت ہے ۔سلطان محمود غزنوی چونکہ غزنوی کارہنے والا تھا اس لیے اسے اپنے شہر سے بڑی محبت اور دلچسپی تھی ۔ 386ھ میںجب وہ تخت نشین ہوا تو غزنی شہر کو اس کی حکومت کے باعث دنیائے اسلام کے شہروں میں ممتاز حیثیت حاصل ہوگئی ۔اسی وجہ سے غزنی اس دور میں بہت جلد علم و ادب اور تہذیب وتمدن کا مرکز بن گیا ۔غزنی میں اس کا دربار علماء،فضلاءاور صاحب کمال لوگوں کی آماجگاہ تھا اس دور کے صاحب کمال لوگوں میں ابوریحان البرونی ،ابو نصر عینی ابو منصور ثعالبی ،ابو مشکان ،ابو طیب سہل بن سلیمان صعلوکی ،ابو محمد عبداللہ بن حسین الناصحی ،ابو القاسم خواجہ احمد بن حسن مہدی ،ابو العباس ،فضل بن احمد السفرائتی ،ابو الخیر حماد،فردوسی ،عسجدی ،اسدی ،فرخی ،ابوالفتح بستی ،عنصری وغیرہ کانام ممتاز ہے ۔یہ لوگ دربار غزنی کی زینت بنے ہوئے تھے اور ہر طرف علم وادب کا فیض تھاغرضیکہ حضرت سید علی ہجویری کے زمانے میں غزنی کا شہر دنیائے اسلام کے ممتاز علماءاور فضلاءکا گہوارہ تھا۔

علم وادب کا مرکز  

محمود غزنوی نے اس شہر کو علم وادب میں بڑافروغ دیا۔اس کے دورمیںغزنی میں سینکڑوں مدرسے تھے۔جن میں تعلیم وتربیت کا خاصا انتظام تھا ۔دوراورنزدیک سے طالب علم غزنی آکرعلمی تشنگی بجھاتے تھے علوم وفنون اور علم وادب کی ان بزم آرایﺅں کے علاوہ بیشتر روحا نی مراکز بھی قائم تھے جن میں بڑے بڑے امیر وزیر اور بادشاہ بھی حاضر ہوتے تھے ۔بلکہ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ محمود غزنوی اور اس کی اولاد کا مشرق پرسب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کی سر پرستی نے فارسی علم وادب کو وہ فروغ دیا کہ جس کی مثال زمانہ پیش نہیں کر سکتا ۔اور تمام دنیا کے بہترین عالم اور فاضل اس شہر میں اکٹھے کر لیے گے ۔اس زمانے میںیہ شہر علم و ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

غزنی کی تعمیرو توسیع 

سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور میں غزنی شہر کی تعمیر و توسیع میں بہت دلچسپی لی ۔اس نے دریائے غزنی پر جو شہر سے29 کلو میڑ دور شمال کی جانب ہے ایک بند تعمیر کرایا تھا جس کی تعمیر پر لاکھوں خرچ ہوئے یہ بند خشک موسم میں غزنی کے نواحی گاﺅں کی آبپاشی کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا تھا ۔سلطان محمود غزنوی نے غزنی شہر میں 410ھ میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا اس زمانے کے لحاظ سے وہ بڑی شان و شوکت کا حامل تھا۔اور یہ اپنے دور کی بہترین درسگاہ تھی ۔بیان کیاجاتا ہے کہ سفر قنوج کے بعد جب محمود غزنوی واپس غزنی پہنچا تواس نے حکم دیا کہ مال غنیمت کی فہرست تیار کی جائے ۔جب حکم شاہی کی تعمیل ہوئی تو بقول محمد قاسم فرشتہ بیس ہزار اشرفیاں ،کئی لاکھ روپے ،پچاس ہزار لونڈی غلام ،تین سو پچاس ہاتھی ،دوسری بیش قیمت اشیاءسلطان کے ہاتھ آئی تھیں۔چنانچہ اس فتح کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہوئے ۔ایک فلک بوس مسجد تعمیر کرنے کاحکم دیا تھا۔اصل مسجد سنگ مرمر اور بیش قیمت پتھروں سے بنائی گی ۔اس میں مربع ،مسدس ،مثمن ،اور مدورسنگ مرمراورسنگ موس کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر نصب کیے گے تھے۔تاکہ دیکھنے والے عمارت کی خوبصورتی اور متانت سے متاثر ہوں۔تکمیل کے بعد اس کو بڑے سلیقے سے آراستہ کیا گیا۔قندیلیں نصب کی گئیں کثرت روشنی اور تزئین و آرائش کی وجہ سے اس مسجد کو عروسے فلک کہا جانے لگا۔سلطان محمود نے مسجد کے ساتھ بہت بڑا مدرسہ بھی تعمیر کرایااوراسی مدرسے میںعلمی اور دینی کتابوں کاکتب خانہ بھی بنوایا ۔کتب خانے میں تمام دنیا سے نایاب و نادر اور قلمی کتب منگواکر اس کی رونق کو دوبالاکر دیا۔مسجد اور مدرسے کے اخراجات کے لیے بہت سے دیہات وقف کردیے ۔سلطان کے اس شوق کو دیکھ کر امراءاور اعیان سلطنت نے غزنی میں بیشمار مساجد سرائیں ،خانقاہیں اور مدرسے تعمیر کرائے ۔عروس فلک مسجد کی تعمیر کے لیے ہندوستان سے سنگ مرمر فان کانوں سے کھدواکر یہاںمنگوایاگیااور درخت بھی مسجد کے باغ و خیابان میں لگوائے گئے۔غزنی سے تھوڑے ہی فاصلے پر دو مینار ہیںجو ایک دوسرے سے چار سو گز دور ہیںہر ایک 144فٹ بلند ہے ۔اندر سڑھیاںہیں جن پر سے انسان اوپر تک جا سکتا ہے۔میناروں کے مختلف حصوں میں نہایت خوبصورت خط کوفی میں آیات اوراشعار لکھے ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک مینار سلطان محمود نے تعمیر کروایا تھا۔اور دوسر ااس کے بیٹے سلطان مسعود نے تعمیر کروایا تھا۔مسعود سلطان نے اپنے دور حکومت میںغزنی میں ایک نیا محل باغ و کوشک تیار کرایا۔ اس کی تعمیر پر تین سال صرف ہوئے ۔1038ئ میں موسم گرما کے آغاز میں اس کی تکمیل کا جشن منایا گیا ۔بیہقی اس جشن میں شریک تھا۔اس نے اس کی بہت تعریف کی ہے ۔اس وسیع و عریض ایوان میں زربفت کے قالین بچھے ہوئے تھے اور طلائی چوکیاں رکھی ہوئی تھیں جن پرکافوری شمع روشن اور عود عنبر کے مشکب نافے مہک رہے تھے ۔سلطان کی قبا میں کپڑا کم اور سونا زیادہ ڈھلکتا تھا۔غزنی میں سلطان سبکتگین،سلطان محمود غزنوی ،سلطان مسعود غزنوی ،حکیم سنائی ،علی لالہ ،بہلول دانا،سید حسن کے مزارات موجود ہیں ۔نیز مزار تاج الاولیاءاوروالدہ اور والد حضرت علی ہجویری ؒ بھی خستہ حالت میں موجود ہیں ۔غزنی سے چند میل کے فاصلے پر سلطان محمد غوری کامزاربھی ہے ۔

تعلیم و تربیت

تعلیم و تربیت

والدین کا بچوں کی تربیت میں بڑا دخل ہے آپ کے والدین چونکہ بڑے دیندار تھے اس لیے انھیں اس بات کا بے حد شوق تھا کہ ان کا بیٹا دینی تعلیم سے آراستہ ہو ۔اور بڑا ہو کر عالم فاضل بنے ۔حضرت علی ہجویریؒ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جب کہ غزنی دنیائے اسلام کے ممتاز اور معروف علماءاورفضلاءکا گہوارہ تھا۔شہر میں کئی ایک مدرسے تھے جن میں تعلیم وتربیت کا معقول انتظام تھا۔اس لیے دور دور کے علاقوں سے طالب علم آکر غزنی میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس کے علاوہ مساجد کے دینی مدرسے بھی تھے جہاں پر طالب علم دینی علم قرآن و حدیث پڑھتے تھے۔غرضیکہ غزنی کا ماحول ایک طالب علم کے لیے بہت ہی بہتر تھا۔ہر قسم کی سہولت میسر تھی 

قرآن پاک کی تعلیم 

چار سال سے زائد عمر میں آپ نے حروف شناسی کے بعد قرآن پڑھنا شروع کیا۔آپ نے قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد یاکسی استاد سے حاصل کی۔اس کے بارے میں کتب تاریخ خاموش ہیںبہر کیف آپ کے والدین نے ابتداءہی سے اپنے لخت جگر کی پرورش وتربیت پر خاص توجہ دی۔اللہ تعالی نے آپ کو فطری طور پربہت ہی اچھا حافظہ دیا تھا یعنی آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔تھوڑے ہی عرصے میں آپ نے قرآ ن پاک ناظرہ پڑھ لیا ۔

آپ کا بچپن

آپ کے اندر بچپن ہی میں متانت اور سنجیدگی تھی ۔آپ کے گھر کا ماحول بڑاپاکیزہ اور روحانی تھا ۔آپ کے گھریلو ماحول کا اثر تھا کہ آپ بچپن ہی سے نماز کے پابند ہو گئے ۔آپ کی عادت میں نہایت درجے کی شرافت تھی اس لیے آپ نے بچپن میں عام بچوں کی طرح کھیل کود میں بالکل دلچسپی نہ لی ۔
آپ کی تعلیم وتربیت کے بارے میں ایک تذکرے میں لکھا ہے کہ جس قدسی نفس ماں کی آغوش میں آپ پروان چڑھے اس کی زبان ذکرےالٰہی میں مصروف اور دل جلوہ حق سے سر شار رہتا تھا۔اس لیے آپ نے ابتدائے عمر ہی سے بڑی محتاط اور پاکیزہ زندگی گزاری ۔عبادت کا شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا ۔نیک نفس والدین کی تربیت نے آپ کے اخلاق کو شروع ہی سے پاکیزگی کے سانچے میں ڈھال دیا تھا۔ہوش سنبھالتے ہی آپ کو تعلیم کے لیے مکتب میں بیٹھا دیا گیا ۔حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآن حکیم پڑھا۔

علم شریعت کا حصول

قرآن مجید پڑھنے کے بعد آپ نے غزنی کے مختلف مدارس سے اس دور کی مروجہ عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔پھر علم حدیث ،تفسیر ،فقہ ،منطق اور فلسفہ کی تعلیم مکمل کی ۔اس طرح جوانی کے عالم تک آپ کو علم شریعت میں پوری طرح مہارت حاصل ہو گئی ۔کیونکہ آپ کی تصانیف آپ کی علمی پختگی کابین ثبوت ہیں ۔
علمی پختگی کے لیے آپ نے اساتذہ سے استفادہ کیا ان میں شیخ ابوالعباس احمد ابن محمد اشقانی ،شیخ ابو القاسم گرگانی ،ابوالعباس احمد بن محمد قصاب ،ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف بالذاتستانی،ابو سعید فضل اللہ بن محمد ،ابو احمد المظفر بن احمدبن حمدان اور شیخ ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوزان القشیری کے نام قابل ذکر ہیں ۔مگر آپ کے سب سے پہلے استاد شیخ ابوالقاسم گرگانی ہیں ۔جن سے آپ نے درسی علوم حاصل کیے اور حصول علم میں ان سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کیا۔

طالب علمی کے دور کا ایک واقعہ 

حضرت خواجہ مستان شاہ کابلی اپنی کتاب سلطان العاشقین میں فرماتے ہیں کہ جن کا دل خداوند کریم کی طرف متوجہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔اس ضمن میں ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سید مخدوم علی ہجویری ؒ محمود غزنوی کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں اکثر دیکھے گئے ۔اس وقت آپ کی عمر با مشکل بارہ تیرہ برس کی ہو گئی ۔حصول علم کے جذبے سے سر شار یہ طالب علم تعلیم میں اتنا محو ہوتا کہ صبح سے شام ہو جاتی مگر کبھی پانی تک پیتے نہ دیکھا گیا ۔رضوان نامی سفید ریش بزرگ اس مدرسہ کے مدرس تھے اور اپنے اس خاموش طبع طالبعلم کو تکریم کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔
ایک دفعہ محمود غزنوی کاگزراس مدرسہ کی جانب ہو ا۔اور اس عظیم درسگاہ میں آگیا ۔دیگر شاگردوں کے برعکس حضرت مخدوم علی ہجویری ؒ اپنے کام میں اتنے منہک تھے کہ ان کو کوئی خبر نہ تھی ۔بزرگ رضوان نے پکارا ”دیکھو مخدوم علی !کون آیا ہے “؟اب کیا تھاایک طرف محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن راہ ِ حق کامتلاشی عجیب منظر تھا۔محمود غزنوی نے اس نو عمر طالب علم کی تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں فوارََ جھکا دیں اور مدرس سے کہا ”واللہ !یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے ۔ایسے طالب علم اس مدرسے کی زینت ہیں ۔“فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی جس کے نام سے ہندوستان کے بڑے بڑے راجے اور مہاراجے تھرآتے تھے اور جس کی تلوار سے سارا ہندوستان لرزاٹھاوہ ایک کمسن طالب علم کے آگے سر نگوں ہو گیا ۔

بیعت اور خدمتِ مُرشد

بیعت اور خدمتِ مُرشد 

طریقت میں حضرت علی ہجویری ؒ کاتعلق سلسلہ جنیدیہ سے ہے ۔اس سلسلہ طریقت کے شیخ المشائخ اور شریعت کے امام الائمہ حضرت جنید بغدادی ؒہیں ۔بہت سے صوفی روحانیت میں اس سلسلہ سے مستفید ہوئے ہیں ۔مسلک جنیدیہ تمام مسالک میں معروف ترین ہے۔آپ نے فرمایا کہ ہمارے تمام شیوخ اوراکابرین اسی سلسلہ جنیدیہ سے منسلک ہیں۔

بیعت 

معرفت کے اسرارو رموزمرشد کامل کی بیعت کے بغیر نہیں کھلتے اس لیے بزرگان دین نے ولایت اور حصول معرفت کے لیے بیعت کو لازم قرار دیا ہے حضرت سید علی ہجویری ؒ نے جب ظاہری دینی علوم کو مکمل طور پر حاصل کر لیا تو اب آپ کے دل میں تزکیہ نفس کے لیے راہ ِ طریقت پر گامزن ہونے کا شوق پیدا ہوا۔آپ کے زمانے میں حضرت ابوالفضل محمد حسن ختلی ؒ کو شیخ کامل اور ولایت کابلند درجہ حاصل تھاوہ علوم ظاہری و باطنی میں یکتائے زمانہ تھے اور سلسلہ جنیدیہ کے شیوخ میں سے ولی کامل تسلیم کیے جاتے تھے اپنے ہم عصر بزرگوںمیں انھیں نمایاں مقام حاصل تھا۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ جس دور میں سیرو سیاحت میں مصروف تھے تو ایک مرتبہ سفر کرتے ہوئے ملک شام پہنچے ۔وہاں آپ کی ملاقات حضرت سید ابوالفضل ختلی ؒ سے ہوئی آپ ان کی عارفانہ اور عالمانہ گفتگو سے بڑے متاثر ہوئے انھوں نے جب حضرت علی ہجویری ؒ کو نظر باطن سے دیکھا تو انھیں آپ کی پیشانی میں نور ولایت محسوس ہوا ۔آخر آپ نے ان کے دستِ حق پر بیعت کرلی ۔اس طرح آپ راہِ سلوک کے طالب بن کر سلسلہ جنیدیہ سے وابستہ ہو گئے۔

سلسلہ طریقت

آپ کا شجرہ طریقت گیارہ واسطوں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں ملتا ہے حضرت سید علی ہجویری ؒ مرید حضرت ابوالفضل محمدابن حسن ختلی ؒوہ مرید حضرت شیخ ابوالحسن علی الحصری کے ،وہ مرید حضرت ابو بکر شبلی کے ؒ،وہ مرید حضرت جنید بغدادی کے ،وہ مرید حضرت سری سقطی ؒ کے ،وہ مرید حضرت معروف کرخی ؒ کی ،وہ مرید حضرت داﺅد طائی کے ،وہ مرید حضرت حبیب عجمی کے ، وہ مرید خواجہ حسن بصریؒ کے ،اور وہ میرید حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ،اوروہ تربیت یافتہ سید الانبیاءمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے ۔

خدمت مُرشد

کشف المحجوب میں حضرت علی ہجویری ؒ کی مختلف مقامات پر اپنے مرشد کی عظمت شان میں بیان کردہ روایات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ کو اپنے مرشد سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی ۔اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں اپنے مرشد کی بے پناہ خدمت کی اوران کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا ۔آپ نے صحبت مرشد سے مستفید ہونے کے لیے زندگی کا کچھ حصہ ان کی خدمت میں گزارا ۔اس کے علاوہ جب کبھی روحانی رہنمائی کی ضرورت ہوئی تو آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور ان سے جو بات پوچھناہوتی پوچھ لیتے ۔اگر چہ آپ نے کچھ دیر مشائخان ِطریقت سے بھی اکتساب فیض کیا مگر روحانیت میں جو بلند مقام آپ کو حاصل ہواوہ اپنے مرشد کی دوعاﺅں اور نظر شفقت ہی بدولت ہوا ۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ نے اپنے مرشد کے ساتھ کچھ سفر بھی کیے جن کا ذکر انھوں نے کشف المحجوب میں بھی کیا ہے غرضیکہ جب بھی آپ ان کے ساتھ کہیں جاتے تو سفر میں جو سامان بھی ہوتااسے خود اٹھاتے لیکن سامان تھوڑا ہی ہوتا تھاچونکہ آپ کے مرشد توکل علی اللہ کے از حد قائل تھے اس لیے عبادت کے لیے وہی سامان لیتے جس کی از حد ضرورت ہوتی ۔

مرشد کے ساتھ سفر کا ایک واقعہ 

حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے مرشد کے ہمراہ آذربائیجان کے علاقے سے گزررہا تھا میں نے دیکھا کہ دو تین گدڑی پوش فقراءایک گندم کے کھلیان پر اپنے خرقے کے دامن پھیلائے کھڑے ہیں تاکہ کاشتکار اس میں گندم ڈال دیں ۔مرشد کی نگاہ ان پر پڑی تو پکار اٹھے ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے میں نے کہا حضور !یہ لوگ کیوں اس مصیبت میں گرفتارہوئے ۔اور مخلوق کے لیے باعث ذلت بنے ؟آپ نے فرمایا ان کے پیروں کو مرید بڑھانے کا حرص ہے اور انھیں متاع دنیا جمع کرنے کی لالچ۔اورحرص کوئی دوسری حرص سے بہتر نہیں ہے۔اور بے حقیقت دعوی پروری نہیں تو اور پھر کیا ہے ۔؛کشف المحجوب

حضرت ابوالفضل ختلی

آپ حضرت سید علی ہجویری ؒ کے روحانی پیشوا ہیں ،آپ کا شمار جلیل القدر اولیا ءاور صُوفیہ میں ہوتا ہے ۔آپ زہدةالعرفاء،گنج حقیقت ،برہان الطریقت ،حجةالاولیاءاور مظہر عزلت تھے ۔آپ عارف کامل ہونے کے ساتھ قرآن حدیث کے زبردست عالم تھے آپ کو تفسیر ،روایات اور حدیث پر کامل عبورحاصل تھا۔زہد و تقٰوی میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ عابدوں کے شیخ تھے ۔اور روحانیت میں اپنے وقت کے اوتادوں میں سے تھے بلکہ آپ ان کی عزت تھے ۔
زُہدو تقویٰ 
تصوف میں سلسلہ جنیدیہ سے نسبت رکھتے تھے اور خواجہ حصری ؒ کے مرید و خلیفہ تھے ۔آپ ختلان کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو ختلی کہاجاتا ہے ۔ شیخ ابو عمر قزوینی ؒاور ابو الحسن سالیہ ؒ آپ کے ہم عصروں میں سے تھے ۔آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملک شام کے مشہور شہر دمشق کے قریب وادی بیت الجن میں بسر کیا ۔ وادی بیت الجن دمشق اور بانیار کے درمیان ایک گاﺅں ہے ۔آپ نے زہد اور چلہ کشی کے لیے زندگی کا کچھ حصہ تنہائی میں لسکام نامی پہاڑپر بھی گزارا۔ایک روایت میں ہے کہ آپ ساٹھ سال تک گوشہ نشینی میں رہے ۔یہاں تک کہ لوگ آپ کانام تک بھی بھول گئے۔گوشہ نشینی کے بعد آپ نے کچھ عرصہ سیروسیاحت میں بھی بسر کیا اور کئی مقامات پر مظاہر فطرت کے آثار بھی دیکھے 

معمولاتِ مرشد 

حضرت علی ہجویری ؒ نے اپنے مرشد کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ صوفیوں کے ظاہری لباس اور ان کی رسوم کے پابند نہ تھے بلکہ اہل رسوم اولیاءکے ساتھ آپ کا رویہ سخت تھا۔آپ مزید کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ ہیبت اور دبدبے والا انسان نہیں دیکھا ۔
آپ خودبھی کم غذاکھاتے تھے اور اپنے عقیدت مندو ں کو بھی کم کھانے کی تاکید فرماتے تھے ۔اسی طرح سوتے بھی کم تھے اور مریدوں کو بھی کم خوابی کی ہدایت فرمایاکرتے تھے۔بہت کم گفتگو کیاکرتے تھے اور مریدوں کو بھی کم گوئی کی تاکید فرماتے تھے ۔لباس بھی معمولی زیب تن فرماتے تھے ۔عام طور پر گودڑی نہیں پہنتے تھے ایک بار ایک جامہ پہنا۔وہی جامہ برسوں آپ کے جسم پر رہا۔اسی کو دھو کر زیب تن فرمالیتے تھے ۔ جب وہ کہیں پر سے پھٹ جاتا اس میں پیوندلگالیتے کہتے ہیں کہ اس جامے میں اتنے پیوند لگے کہ اصل کپڑے کا نام ونشان باقی نہ رہا۔

مرشد کامل کی کرامت 

حضرت شیخ علی ہجویری ؒ کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے مرشد کامل کے ہاتھ دھلا رہاتھا ۔میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جب تمام امور تقدیراور قسمت سے وابستہ ہوتے ہیں تو پھر آزادوں کو پیروں اور پیشواﺅں کا غلام کس واسطے بناےا جاتا ہے ۔کیا صرف پیروں کی کرامات کی امید پر ۔حالانکہ میرے دل میں یہ خیال اور وسوسہ ہی پیداہواتھا اور یہ بات میں نے زبان سے نہیں نکالی تھی ۔مگر پیر روشن ضمیر نے اپنے کشف سے یہ بات معلوم فرمالی اور کہنے لگے ۔”بیٹا!جو کچھ تیرے دل میں خیال پیداہوا ہے ۔مجھے معلوم ہوگیا۔جب اللہ تعالیٰ کسی کو تاج و تخت دینا چاہتاہے تو اس کو توبہ کرنے کی توفیق فرمادیتا ہے اور وہ ایک مہربان دوست کی خدمت کرنے لگتاہے ۔اسی خدمت کے نتیجہ میں اس کی کرامت کا اظہار ہوتا ہے ۔

اطاعت مرشد کا واقعہ 

حضرت ابو الفضل ختلی ؒ نے خود فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ اولیاءاللہ کی ایک جماعت جنگل میں جمع تھی ۔میرے پیر حصری ؒ مجھے ساتھ لے گئے ۔اس جماعت کے لوگ اونٹوں پر سوار چلے آرہے تھے لیکن شیخ حصری ؒ ان میں سے کسی کی طرف توجہ نہیں فرمارہے تھے ۔انھی لوگوں میں ایک شخص نظر آیا جو پھٹی جوتیا ں اورٹوٹاہواعصا ہاتھ میں لیے ہوئے تھا ۔جس کے پاﺅں بے کار تھے ۔ننگے سر ،بہت ہی لاغر اور دُبلاتھا۔اس کو دیکھ کر شیخ حصر ی ؒ فوراََاپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اوراس کو لا کر ایک بلند جگہ پر بٹھایا ۔مجھے یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا ۔بعد میں شیخ سے میں نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے اولیاءمیں ایک ایساولی تھا جو خود ولایت کے تابع نہیں بلکہ ولایت خود اس کے تابع ہے اور وہ کرامت اور بزرگی کی طرف مطلقاً التفات نہیں کرتے ۔

تصرف کا واقعہ 

حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز میرے پیرومرشد نے ،اللہ ان سے راضی ہو ،بیت الجن سے دمشق کا سفر اختیار کیا۔میں ان کے ساتھ تھا۔ بارش آگئی اور ہم کیچڑ میں چلتے ہوئے خاصی دشواری محسوس کر رہے تھے ۔اچانک میری نظر پیرومرشد پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے جوتے کپڑے اور پاﺅںبالکل خشک تھے گویا بارش ہوہی نہ رہی تھی ۔میں نے ان سے دریافت کیا ،تو فرمایا ، ہاں !جب سے میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ہر قسم کے وہم اور شبہ کو دور کردیا ہے اور دل کو حرص و لالچ کی دیوانگی سے محفوظ کر لیا ہے ،تب سے اللہ تعالیٰ نے میرے پاﺅں کو کیچڑ سے بھی محفوظ کر رکھا ہے ۔

اقوال 

آپ کاارشاد ہے کہ دنیا ایک دن کی مانند ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں یعنی ہم دنیا سے نہ کچھ لیتے ہیں اور نہ اس کے فریب میں آتے ہیں ۔اس لیے کہ ہم نے اس کے نقصانات دیکھ لیے ہیں اور اس کے حجابات سے آگاہ ہو چکے ہیں اس لیے ہم نے اس سے رو گردانی کر لی ہے ۔آپ کا ایک اور ارشاد ہے کہ کرامت کا ظاہر نہ کرنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی ولی اپنی ولایت کو ظاہر کر دے تو اس کے اظہار سے ولی کو نقصان نہیں پہنچتا ۔
حضرت ابوالفضل ختلی ؒ اپنے مریدوں کو کم بولنے اور کم سونے کی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے ۔ آپ فرمایاکرتے تھے کہ جب تک نیند کا شدید غلبہ نہ ہواس وقت تک ہر گز مت سو۔اور جب نیند سے بیدار ہو تو دوبارہ سونے کی کوشش نہ کرو ۔
حضرت علی ہجویر یؒ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے انُس ناممکن ہے ۔اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے اے محبوب !جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں ،تو میں نزدیک ہوں ۔
  بے شک جو میرے بندے ہیں۔
  میرے بندوں سے فرماﺅ 
اے میرے بندو!آج نہ تم پر خوف ہے نہ تم کو غم ۔ 
جب بندہ فضل خدا وندی کا مشاہدہ کرتاہے تو اسکے ساتھ دوستی اختیار کرتاہے دوستی اُنس سے پیداہوتا ہے ۔اس لیے کہ دوست سے ہیبت کھانا بیگانگی اور اس کے ساتھ اُنس یگانگی کی علامت ہے انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنے منعم سے اُنس ہوتاہے اللہ تعالیٰ کے ہم پر اتنے انعامات ہیں اور اس کی ہمیں وہ معرفت حاصل ہے کہ ہم وہاں ہیبت کی بات تک نہیں کرسکتے ۔
آپ کا ارشاد ہے کہ میں اس مدعی پر تعجب کرتا ہوں کہ جو یہ کہتاہے کہ میں تارک دنیا ہوں اور حال یہ ہو کہ ہر وقت کھانے کی فکر میں ہو ۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ میرے مرشد فرماتے ہیںکہ سماع پیچھے رہ جانے والوں کا توشہ ہے ،جو منزل پر پہنچ گئے ہوں انھیں سماع کی ضرورت نہیں ۔اس لیے کہ منزلِ وصال میں کچھ سننے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔سنی کوئی خبر جاتی ہے اور خبر ہمیشہ غائب کی ہوتی ہے ۔وصال میسر آئے تو غائب کا سوال ہی نہیں پید ا ہوتالہذایہاں سماع کی بات سرے سے بے فائدہ ہے ۔

وصال مرشد 

حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ جب مرشد حضرت ابو الفضل ختلی ؒ کی وفات کا وقت آیا تو اس وقت آپ بیت الجن میں تھے ۔بیت الجن ”دمشق اوربانیار “کے درمیان گھاٹی پر واقع گاﺅں ہے ۔آپ کا سر میری گود میں تھا ۔فطرت انسانی کے مطابق اس وقت میرا دل ایک سچے دوست کی جدائی پر رنجیدہ تھا۔ 
آپ نے فرمایا بیٹا !میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کر لیا تو ہر قسم کے رنج وتکلیف سے بچ جاﺅ گئے ۔یاد کھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ کا پیداکردہ ہے ،خواہ وہ نیک ہو یا بد ،تیرے لیے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اورنہ ہی دل میں اس پر معترض ہو ۔ اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جان بحق تسلیم ہوگئے ۔ کشف المحجوب 
مندرجہ بالا بیا ن کے مطابق آپ کا وصال وادی بیت الجن میں ہو ااور آپ کو وہیں دفن کیا گیا ۔

ریاضت وعبادت


ریاضت وعبادت 


کثرت عبادت وریاضت ولایت کی جان اور بنیاد ہے ۔اس لیے قرب الٰہی اور حصول معرفت کے لیے یاد الٰہی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔ہر ولی اللہ کو اس منزل سے ضرور گزرنا پڑا ۔ لہٰذا حضرت سید علی ہجویری ؒ نے بھی اپنی زندگی میں بے پناہ ریاضت اور عبادت کی ۔اس کثرت عبادت سے آپ کو قرآن وسنت پر چلنے میں بڑی استقامت پیدا ہوئی ۔حب الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نکھار پیداہوا ۔راہ ِ طریقت میں بے پناہ ریا ضت و عبادت کر نے کے باوجود آپ کے ظاہری اعمال شرعی حدود سے کبھی متجاوز نہ ہوئے اور آپ کی ساری زندگی اتباع سنت میں گزری ۔
آپ کے مرشد باشرع صوفی تھے۔پابند ِ صوم و صلٰوة تھے ان کی غذانہایت ہی سادہ اور کم تھی ۔ایسے وہ بہت کم سوتے تھے اور سارا وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے چونکہ حضرت علی ہجویری ؒ کو بھی انھوں نے کم کھانے ،کم سونے ،کم گفتگو کرنے کی ہدایت کی اور سارا دن یاد الٰہی میں محو رہنے کی تلقین کی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔حضرت داتا گنج بخشؒ نے پابند شرع رہ کر اللہ کی بے پناہ عبادت کی۔

پابندی صلوٰة 

حضرت سید علی ہجویری ؒ نماز بڑے خشوع وخضوع سے ادا کرتے اور نماز میں آپ بالکل اللہ کی طرف متوجہ رہتے ۔اور نماز پنجگانہ کو تمام شرعی شرائط کے مطابق ادا کرتے ۔فارغ اوقات میں نوافل میں بھی کثرت کرتے ۔پابند ی نماز سے آپ میں ذکر الٰہی پر مداومت ،طہارت نفس ،عجزو انکساری اخلاص عمل جیسی خوبیاں جلوہ گر ہوئیں۔
چونکہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں ابتداءسے آخر تک سالک اور راہِ حق پایا جاتا ہے اور اسے راہِ حق کے مقامات نظر آتے ہیں۔چنانچہ مریدین کے لیے طہارت بمنزلہ توبہ ،مرشد کے ساتھ تعلق ،قبلہ شناسی مجاہدہ نفس ،قیام ذکر کی ہمیشگی ،قرات ،تواضع، رکوع ،معرفت نفس ، سجود ، تشہد ،مقام انس اور سلام دنیا سے علیحد گی اور خلاصی کی طرح ہے ۔پابندی کے بارے میںآپ نے کشف المحجوب میں آپ نے خود لکھا ہے ایک مرتبہ میں چار ماہ مسلسل سفر میںرہا ۔مگر اللہ تعالیٰ کی عطاکر دہ توفیق کے باوجود میری نماز باجماعت ترک نہ ہوئی ۔یعنی آپ نے سفر میں بھی نماز پنجگانہ با جماعت پڑھی ۔اور جب جمعہ کا دن آتا تو آپ کسی نہ کسی قصبے میںچلے جاتے اور نماز جمعہ اداکرتے ۔

روزے کی پابندی

بھوک سے چونکہ انسان میں اللہ تعالیٰ کے رزق کی قدر پیداہوتی ہے ۔صبر اور شکر کے اوصاف پیداہوتے ہیں اور نفسانی خواہشات کی اصلاح ہوتی ہے اس مقصد کے لیے آپ گاہے بگاہے فرضی روزے رکھنے کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھاکرتے تھے اس کا ذکر آپ نے کشف المحجوب میںیوں بیان کیا ہے :۔
 ایک مرتبہ میں شیخ احمد بخاری ؒکے پاس گیاتو ایک طباق حلوہ کی ان کے سامنے رکھی ہوئی تھی ۔وہ اسے کھا رہے تھے ۔میری طرف اشارہ فرمایا کہ کھاﺅ میں نے کہا میں نفلی روزے سے ہوں ،تو اس پر انھوں نے فرمایا ،کیوں روزے رکھتے ہو ؟میں نے کہا کے فلاں بزرگ کی موافقت میں روزہ رکھا ہے ۔فرمایا یہ درست نہیںہے کہ کسی مخلوق کی کوئی مخلوق موافقت کرے ۔میں نے ارادہ کیا کہ روزہ کھول دو ں ۔فرمایا جب تم نے اس کی موافقت کو ترک کرنے کا ارادہ کیا ہے تو اب میری موافقت کر لو۔کیونکہ میں بھی ایک مخلوق ہوں اور دونوں ایک سے ہیں ۔

چلہ کشی 

نفسانی خواہشات کو شرعی خدود کا تابع بنانے کے لیے مجاہدہ نفس ضروری ہے مجاہدے کی ایک صورت چلہ کشی ہے ۔لہٰذا آپ کو چلہ کشی کی راہ اختیار کرنا پڑی ۔آپ نے کس قدر چلہ کشیاں کیں ۔اس کے بارے تاریخ کے اوراق خاموش ہیں ۔مگر آپ نے اپنی چلہ کشی کا ذکر کشف المحجوب میں یوں بیان فرمایا ہے:۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں ایک باطنی الجھن میںگرفتار ہو گیا ۔ایک روحانی راز تھا جو مجھ پر منکشف نہیں ہوتا تھا ۔اس کے انکشاف کے لیے میں نے بڑی ریاضت کی مگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا ۔اس سے بیشتر بھی ایک بار ایسا ہواتھا اور میں نے اس کے حل کے لیے حضرت ابو یزید ؒ کے مزرا پر بھی چلہ کشی کی تھی ۔اس چلہ کشی کے نتیجے میں میری وہ باطبع مشکل حل ہوگئی تھی ۔چنانچہ اس بار بھی آپ کے مزار پر معتکف ہو گیا لیکن تین ماہ اعتکاف میںبیٹھے رہنے کے باوجود مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔اس دوران میں روزانہ تین مرتبہ نہاتااور تین ہی دفعہ طہارت کرتا ۔کامیابی کی کوئی صور ت نہ دیکھ کرمیںنے خراسان جانے کے لیے رخت سفر باندھا ۔راہ میں ایک گاﺅں میں قیام کیا ۔یہاں صوفیوں کاایک گروہ مقیم تھا ۔یہ رسم پرست لوگ تھے ۔انھوں نے مجھے سادہ جامہ پہنے دیکھ کر کہا کہ یہ ہماری جماعت سے متعلق نہیں۔اور واقعی میںانکی جماعت سے تعلق نہ رکھتا تھا۔انھوں نے مجھے قیام کے لیے جوجگہ دی ،خود اس سے بلند جگہ پر قیام کیا۔خود تو نہایت لذیذو نفیس غذائیں کھائیں اور مجھے ایک سوکھی روٹی کھانے کو دی ۔وہ لوگ میرامضحکہ اڑاتے ،خربوز ہ کھا کر چھلکے مجھ پر پھینکتے ۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ اے مولا کریم !اگر ان کا لباس(گودڑی) وہ نہ ہوتا جو تیرے دوستوں کا ہوتاہے تو میںان کی یہ زیادتی کسی صورت برداشت نہ کرتا باوجود یہ کہ رسم پرست صوفی مجھے ہدف طنزو ملامت بنا رہے تھے ،مگر انبیاءواولیاءکی بہت بڑی سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے میرے دل کو بڑی مسرت حاصل ہو رہی تھی اور مجھ پر یہ راز سر بستہ کھل گیا کہ بزرگان طریقت کم فہموں کی زیادتیاں کیوں برداشت کرتے ہیں اور مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ ملامت برداشت کرنا بھی روحانی مدارج کی بلندی کا زینہ ہے ۔اور اس میں بڑے مفادات ہیں ۔

سفری مشقت

سفری تکالیف اور مشقتیں بھی مجاہدے کا ایک حصہ ہیں ۔خاص کر سفر میں لباس،رہائش اور خوراک کی دقت پیش آتی ہے ۔انھیںبرداشت کرنے سے بھی تزکیہ نفس پیدا ہوتا ہے ۔حضرت سید علی ہجویری ؒ نے سفر کی بڑی مشقتیں برداشت کیں اگر آپ کو کوئی روحانی الجھن پیش آجاتی اور اس کے حل کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہ آتا تو اس کو سمجھنے کے لیے نہ رات دیکھتے نہ دن ،بس اپنے مرشد یا اپنے اساتذہ میں کسی کی طرف چل دیتے اور ان کے پاس پہنچ کر رہنمائی حاصل کرتے ،راستے میں خواہ کتنی تکلیف اٹھانی پڑے ،برداشت کرلیتے ۔
طوس کا شہر آپ کے شہر سے کافی دور ہے ۔وہاں آپ کے استاد ابوالقاسم گرگانی ؒ رہتے تھے ۔آپ اکثر یہ طویل سفر کرکے ان کے پاس آتے جاتے رہے اور سفر کی مشکلات رضائے الٰہی کے لیے برداشت کرتے رہے ۔ان میں سے ایک سفر کا ذکر آپ نے کشف المحجوب میں یوں بیان کیا ہے :

اصل مجاہدہ  

حضرت سید علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوا ب میں زیارت کی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے وصیت فرفائیے۔آپ نے ارشاد فرمایا :
احبس حواسک    اپنے حواس کو قابو میں رکھو۔
اپنے حواسِ خمسہ کو قابو میں رکھنااصل مجاہدہ ہے ۔تمام علوم انھیںحواسِ خمسہ کے پانچ دروازوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔حواسِ خمسہ یہ ہیں ۱۔دیکھناء۲سنناء ۳چکھنائ،۴سونگھنا اورچھونا ئ۵۔یہ حواس علم و عقل کے سالار ہیں ۔چار حواس کی جگہ مخصوص ہے مگر ایک حِس سارے جسم میں پھیلی ہوئی ہے۔آنکھ دیکھنے کا مقام ہے یہ رنگ اور جہاں کو دیکھتی ہے ۔کان سننے کا محل ہیں ۔وہ خبراو ر آواز سنتے ہیں ۔تالو ذائقہ کا محل ہے ۔وہ چکھتا ہے ۔ناک سونگھنے کا مقام ہے وہ سونگھتی ہے ،لمس یعنی چھونے کاکوئی خاص مقام نہیں ۔یہ تمام اعضاءمیں پھیلی ہوئی ہے ۔انسان کے تمام اعضاءسردی گرمی سختی اور نرمی کا برابر احسا س کرتے ہیں ۔اللہ تعالی کی طرف سے الہامی یا بد یہی علوم کے سوا کوئی ایسا علم نہیں جو حواسِ خمسہ کے انھی پانچ دروازوں سے حاصل نہ ہوتا ہو۔الہامی اور بدیہی علوم میں سے کسی غلطی کا کوئی امکان نہیں مگر حواسِ خمسہ میں صفائی بھی ہے اور کدورت بھی ۔جس طرح علم ،عقل اور روح کو حواس میں دخل ہے ۔اس طرح نفس اور خواہشات کو بھی ہے ۔گویا حواسِ خمسہ کی حیثیت عبادت و معصیت اور سعادت وشفاوت کے درمیان مشترکہ آلہ کار کی ہے ۔مثلاََکان اور آنکھ میں دوستی حق کا پہلو یہ ہے کہ وہ حق دیکھیں اور سچی بات سنیں ان میں نفس کا پہلو یہ ہے کہ وہ لغویات سنیں اور شہوت سے دیکھیں ،چھونے ،دیکھنے اورچکھنے میں حق کی دوستی یہ ہے کہ حکم الٰہی میں تابع داری کریں ۔ان میں نفس کا پہلو یہ ہے کہ شریعت کے خلاف چلیں ۔(کشف المحجوب )

خرقہ خلافت

حضرت سید علی ہجویری ؒ جب کثرت زہد و تقوی ،ریاضت و عبادت ،محب مرشد سے حب الٰہی اور عشق رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے آراستہ ہو گے اور سلوک کی تمام منازل عبور کرکے ولی کامل کے درجہ پر پہنچ گئے تو آپ کے مرشد نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور خدمت دین کا حکم دیا۔

سیر وسیاحت 

حضرت سید علی ہجویری ؒ کا عالم شباب کازیادہ حصہ دور و نزدیک کے بہت سے بلاد ِ اسلامیہ کی سیر و سیاحت میں گزرا ۔اس طویل سیر و سیاحت سے آپ کو بے پناہ علمی و روحانی فوائد حاصل ہوئے ۔دوران سفر بے پناہ اولیاءاور مشائخ کرام سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔کئی علماءاور فضلاءسے بھی ملاقاتیں ہوئیں ۔تصوف ، شریعت اور طریقت کے موضوعات پر ان سے مفید باتیں ہوئیں ۔سلوک کی منازل میں کشادگی ہوئی ۔کئی مقامات پر اسراو رموز کی عقدہ کشائیاں ہوئیں ۔غر ضیکہ آپ کے لیے سیر وسیاحت ظاہر ی و باطنی علم کے حصول کے لیے بڑی مفید ثابت ہوئی ۔

سفر میں اتباع سنت

حضرت سید علی ہجویری ؒ نے سفر میں جسے سب سے ضروری بات قرار دیا ہے وہ اتباع سنت ہے ۔آپ فرماتے ہیں مسافر پر سفر کے دوران لازم ہے کہ وہ ہمیشہ سنت کی پیروی کرے ۔کسی مقیم کے پاس پہنچے تو اس کے سامنے عزت و احتر ام سے جائے اسے سلام کہے ۔پھر بایا ں پاﺅںجوتی سے نکالے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے اور جب جوتا پہنتے تو پہلے دایاں پاﺅں جوتے میں ڈالے ۔اسی طرح پاﺅں دھوئے تو پہلے دایاں پھر بایاں دھوئے ۔دو رکعت نماز تحیت ادا کرے ۔پھر درویشوں کے حقوق یعنی خدمت کی بجاآوری میں مشغول ہو ۔کسی حال میں مقیم حضرات پر اعتراض نہ کرے ۔نہ اپنے برتاﺅ میں کسی کے ساتھ زیادتی کرے اسی طرح حاضرین کے سامنے اپنے سفرکی داستانیں ،علم کی باتیں یا حکایات وغیرہ بھی شروع نہ کردے ۔کیونکہ یہ چیزیں رعونت ظاہر کرتی ہیں ۔اللہ کے لیے سب کی باتیں برداشت کرے اور ان کی زیادتی پر صبر کرے ۔اس میں بے شمار برکتیں ہیں۔اگر مقیم یا ان کے خادم اس پر کوئی حکم چلائیں یا اسے کسی کے سلام یا کسی کی زیارت کی دعو ت دیں تو جہاں تک ہو سکے انکار نہ کرے ۔مگر دل میں ا ہل د نیا کی خاطر داری کو برا سمجھتارہے ان بھائیوں کے افعال کی توجہیہ اور تاویل کر لے ۔اپنی کسی نارواضرورت کے ذریعے انھیں تکلیف میں مبتلا نہ کرے ۔اپنی ذاتی ضرورت یا نفس کی راحت کی خاطر انھیں بادشاہوں کے دربار میں نہ گھسیٹے ۔الغرض مسافر ہو یا مقیم ،ہر حال میں صحبت کے دوران رضائے الٰہی مد نظر رکھیں اور ایک دوسر ے کے بارے میں نیک گمان رکھیں ایک دوسرے کی برائی نہ کریں۔پیٹھ پیچھے غیبت نہ کریں ۔ایسی بات طالب راہ کے حق میں بری ہے ۔طالب حق کے لیے مخلوق کی باتیں کرنا بالخصوص معیوب ہےں۔اس لیے کہ ارباب حقیقت فعل کی شکل میںفاعل کو دیکھتے ہیں ۔
آپ نے اپنے دور میں سفری سہولتیں کم ہونے کے باوجود بہت سے اسلامی ممالک کا سفر کیا۔ان ملکوں میں افغانستان ،ترکستان ، ایران ،عراق ، شام ،حجاز اور پاک وہند کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان ممالک کی نشاندہی آپ کی کتاب کشف المحجوب سے ہوتی ہے ۔آپ کو مختلف مقاما ت پر جو باتیں پیش آئیں ان کا ذکر آپ نے اپنی کتاب میںمتعلقہ عنوان کے تحت ذاتی مشاہدہ و تجربہ کی غرض سے کیاہے ۔اور انھی درج شدہ واقعات سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپ نے فلاں فلاںجگہ کی سیروسیاحت کی ۔اس کے علاوہ تذکروں سے بھی بعض شہروں کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے وہاں کا بھی سفر کیا۔غر ض یہ کہ جن علا قوںاور شہر وں میں تشر یف لے گئے ان میںطوس،سرخس،نسا،آذربائیجان،قہستان،طبرستان،مرو،نیشاپور‘ بسطام‘ خراسان‘ ماوراءالنہر‘ بخارا،فرغانہ،سمر قند،خوزستان،اہواز،فارس،کرمان ،جبل لکام،د مشق، وادی بیت الجن،بغداد،کوفہ،بصرہ،مہنہ،رملہ،ترکستان،اور شما لی ہند شمار ہو تے ہیں۔ان علا قوں میں بہت سے علماء،فضلا،مشائخ کرام اور اولیاءاللہ سے آپ کی ملاقاتیں ہو ئیں ۔دوران سیر وسیا حت جن حضرات سے آپ کو ملا قا ت کا شرف حاصل ہوا ان میں آپ کے مر شد حضر ت ابوالفضل ختلی ؒ،حضرت ابو القاسم گرگانی ؒحضرت ابو العبا س احمدبن محمد قصاب ،حضرت محمدبن علی داستانی،حضرت ابوالقا سم عبدالکریم بن ہوازن قشیری ،حضرت احمد بن محمد اشقانی ،حضرت احمد مظفر ،خواجہ رشید مظفر ،خواجہ شیخ احمد حمادی سرخی ؒ ،خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجو دینی ، شیخ ابو عبداللہ جنیدی ،شیخ ابوالعباس دامغانی ،شیخ ابو طاہر مکشوف ،شیخ ابوالقاسم سدی،شیخ ابو مسلم ہروی ،شیخ ابو الفتح شیخ ابوطالب ،شیخ ابو الحسن علی بن بکران ،شیخ ابوالحسن ابن سالیہ ،خواجہ علی بن دالحسین السیر کانی ،شیخ احمد بن شیخ خرقانی ،شیخ محمد زکی بن العلائ،اور شیخ احمد نجار ثمر قندیؒ کے اسماءگرامی قابل ذکرہیں ۔
کشف المحجوب میں آپ نے ان بزرگوں کے علم وفضل اور زہد وتقوی کاذکر کہیں کہیں بڑی محبت اور عقیدت سے کیااور بعض باتوں میں ان کی روحانی اور علمی فضیلت کا اعتراف بھی کیا ہے ۔مندرجہ بالا شیو خ کے بعض واقعات بڑے دلچسپ اور نصیحت آموز ہیں۔جن سے ظاہری و باطنی رہنمائی ہوتی ہے ۔


سفر تبلیغ


سفر تبلیغ 

اللہ والوں کا دستو ر ہے کہ جب ان کے مرید منازل سلوک یعنی شریعت طریقت ،معرفت اور حقیقت میں کامل ہوجاتے ہیں تو ان کے مرشد اپنے سے دور کسی علاقے میں بھیج دیتے ہیں اور تبلیغ دین کا فریضہ ان کے ذمے سونپ دیتے ہیں تاکہ ولایت کا فیض دنیا میں پھلتا رہے ۔اگر مرشدانِ کامل اس طرح نہ کریں تو صوفیاءکی تبلیغ میں جمود آجائے ۔اس لیے ہر ولی کامل نے جب یہ محسو س کیا کہ اس کا مرید منازل ولایت مکمل کر بیٹھاہے تو اس نے اسے دین کی تبلیغ کے لیے کہیں بھیج دیا کیونکہ مرید پر اس بات کا فرض عائد ہو جاتا ہے کہ مخلوق خدا کی بھلائی اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جہاں اس کا حکم دے ،سر گرم ہوجائے ۔
اسی اصول کا اطلاق حضرت سید علی ہجویری ؒ پر بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کے مرشد نے یہ بات محسوس کی کہ اب آپ حصول معر فت میں عرفان کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں ۔تو آپ نے حضرت علی ہجویری ؒ سے فرمایا کہ بیٹا !اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور کرم سے جو فیض وبرکات آپ کو عطا فرمائے ہیں ان کو فیض پہنچنے کی غرض سے آپ ہندوستان چلے جائےں اور وہاں جا کر توحید کی شمع روشن کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیں۔کیونکہ ہند میںکفر وشرک اپنے عروج پر ہے تو وہاں کی گمراہ شدہ مخلوق کو راہِ حق کی دعوت دینا ضروری ہے ۔اس غرض سے تم لاہور چلے جاﺅ اور وہاں جاکر رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دو۔کیونکہ اولیاءکرام کا یہی فرض ہے کہ راہِ حق پانے کے بعد تا دم آخر تو حید کا ڈنکا بجاتے رہیں ۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ کو جب مرشد کا یہ حکم ملاتو انھوں نے اپنے مرشد حضرت ابو الفضل ختلی ؒ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ حضور !وہاں تو آپ نے ایک اور مرید یعنی حضرت شاہ حسین کی یہ ڈیوٹی لگا رکھی ہے ۔پھر وہاں میرے جانے کی ضرورت کیاہے ؟اس کے جواب آپ کے مرشد نے فرمایا کہ اے علی !تمھارے لیے یہ بہتر ہے کہ تم تبلیغ حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے لاہور چلے جاﺅ ۔

سفر لاہور

مرشد سے لاہور جانے کا حکم ملنے کے بعد آپ ان سے رخصت ہوکر سیدھے اپنے وطن غزنی میں آئے ۔اور ہند وستان کے لیے تیاری شروع کردی ۔آپ کی تیاری تو یہ تھی کہ اللہ کے بھروسے پر اللہ کے نا م کو سر بلند کرنے لیے چل دیاجائے ۔لہٰذا آپ غزنی سے لاہور کے لیے روانہ ہوپڑے ۔اس زمانے میں غزنی سے لاہور تک کا سفر کافی دشوار گزار تھا ۔کیونکہ اس راستے میں شمالی سر حد ی علاقہ پڑتاہے اس کازیادہ حصہ پہاڑی ہے۔پہاڑی علاقے میں سفر کرنا کافی پر یشا ن کن بنتا ہے ۔اس سفر میں آپ کے ہمراہ شیخ احمد حماد سر خسی ؒ اور شیخ ابو سعید ہجویری ؒ بھی تھے ۔
پہلے اللہ کے یہ تینوں بندے انتہائی مشقت کے ساتھ پہاڑی علاقے کو عبور کرتے ہوئے پشاور آئے اور پھر وہا ں سے منزل بہ منزل لاہور پہنچے ۔راستے میں آپ کو پنجاب کے دریاﺅں کو بھی عبور کرنا پڑا ۔میری معلومات کے مطابق لاہور میںآپکی آمد کا سن ۱۳۴ھ بمطابق ۱۴۰۱ءہے ۔بعض تذکرہ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت احمد حماد سرخسی ؒ اور شیخ ابو سعید ؒ بعد میں آکر آپ سے مل گئے۔
واللہ اعلم ۔

حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کا جنازہ 

بعض روایتوں میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ جس روز آپ لاہور شہر کی طرف تشریف آئے ،د ن ڈھل چکا تھا ،شام ہوئی چاہتی تھی دریائے راوی اپنی روانی کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔دریا کو عبور کروانے والے کشتی بان اپنے اس روز کے کام کو تمام کر چکے تھے ۔اس لیے آپ کو دریا ئے راوی کے کنارے ہی رات بسر کرنا پڑی ۔چونکہ اس وقت لاہور کی آبادی دریائے راوی کے مشرق ہی میں تھی اور دریا کو پار کیے بغیرشہر میں داخل ہونا نہ ممکن تھا ۔اللہ کے اس مردِ کامل نے اللہ کی یاد میں وہ رات وہیں بسر کر لی دوسرے روز آپ نے دریا عبور کیا اور شہر کی طرف آئے آپ شہر کی مشرقی جانب ہی سے گزر رہے تھے کہ آپ نے چند لوگوں کو جنازہ اُ ٹھا ہوئے دیکھا ۔آپ نے جنازہ میں شامل لوگوں سے پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے ؟لوگوں نے بتایا کہ یہ جنازہ قطب الاقطاب حضرت سید شاہ حسین زنجانی المعروف میراں حسین زنجانی ؒ کا ہے تو اس وقت آپ کو اپنے مرشد کا حکم یاد آیا کہ جب انھوں نے آپ کو لاہور جانے کا حکم دیا تھا تو آپ نے جواب دیا تھاکہ وہاں تو میرے پیر بھائی حسین زنجانی ؒ موجود ہیں تو پھر میرے جانے کی کیا ضرورت ہے ۔مگر جونہی آپ نے شاہ حسین زنجانی ؒ کے وصا ل کے بارے میں سنا تو مرشد کے حکم کی حکمت واضح ہوگئی کہ مجھے یہاں مرشد نے ولایت کے خلا کو پورا کرنے کے لیے بھیجا ہے جو حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔چنانچہ آپ جنازہ کے ہمراہ ہو لیے اورچاہ میراں آکر حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کی تد فین کے تمام امور سر انجام دیے ۔اس کے بعد پھر اپنی راہ لی 
آپ کی آمد کے بارے میں ”تذکرہ داتا گنج بخشؒ “میں وارث کامل نے لکھا ہے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ نے دیکھا کہ لوگ ایک میت اُٹھائے چلے آتے ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت سید میراں حسین زنجانی ؒ کا جنازہ ہے ۔آپ فورً ا سمجھ گئے کہ پیر ومر شد کا مجھے لاہور بھیجنا اس غرض سے تھا کہ میں اس خلاکو پُر کروں جو حضر ت سید میراں حسین زنجانی ؒ کی وفات سے پیدا ہو گیا ہے ۔چنانچہ آپ جنازہ کے ہمراہ ہو لیے ۔نماز جنازہ پڑھی ۔میت چاہ میراں میں سپرد خاک کی گئی ۔
حضرت داتا گنج بخش431ھ میں دن ڈھلے پور ے ڈیڑھ برس کی مسافت کے بعد دریائے راوی کے کنارے پر پہنچے ۔دریاکے جس کنارے پر آپ نے نزول اجلال فرمایااس کے مشرق میں لاہور کی آبادی تھی آپ نے دریا کے کنارے لاہور کے بیرونی حصہ میں رات بسر کی ۔آرام سے نرم و گرم بستر پر لیٹے ہوئے لاہور کے باشندوں کو کیا خبر تھی کہ ان کا وہ روحانی مقتدا اسی شہر کے ایک اجاڑ گوشے میں بے آرامی سے رات گزار رہاہے جس کی ہستی پر نہ وہ بلکہ آئند ہ آنے والی نسلیں بھی فخر کریں گی ۔کون جانتا تھا کہ اس ایک رات کے صلے میں جو یہ مرد کامل اپنی آنکھوں میں کاٹ رہا ہے ،قدرت قیامت تک اس کے مزارپر راتوںکی نیندیں حرام کرنے پر مجبور کردے گی ۔یہ بات بھی کس کے علم میں تھی کہ یہ مرد خدا رات اس لیے شہر کے باہر تنہا گزار رہا تھا کہ اسے اپنے آقا کی غار حراکی زندگی کا مثالی نقشہ پیش کرنا تھا دوسرے لاہور میں ان کا دن ڈھلے پہنچنا یہ بھی ظاہر کر رہا تھا کہ لاہور کی دینی و رُ وحانی زندگی کا آفتاب ڈھل چکا ہے ۔اب نئے سرے سے اس کی رگ و پے میں زندگی کی روح پھونکی جائے گی ۔ اور اس شان سے اس کے بام ودرپر انوار و تجلیات کی بارش ہوگئی کہ لوگ چاند تاروں اور سورج کی چمک دمک کو بھول جائےں گئے صبح سویرے آ پ شہر میں داخل ہوئے ۔ان کا اعزاز یا خیر مقدم اس اجنبی شہر کے عوام و خواص تو کیا کرتے ،نسیم سحر کے جھونکوں اور اس شہر کی خاک کے ذروں نے کیا ہوگا ۔

حضرت نظام الدین اولیا ءؒکی روایت

حضرت داتا گنج بخش ؒ اپنی مرضی سے لاہور آئے یا اپنے پیشواکی اجازت اورحکم سے ۔یہ مسئلہ بھی نزاعی بنا ہوا ہے ۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے بیا ن سے یہ حقیقت واضح ہے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ کی لاہو رمیں آمدحکماً عمل میں آئی ہے فوائد الفوائد میں حضرت سلطان محبوب الٰہی کا جو ملفوظ اس طرح ارشاد کرتاہے۔
وہ یہ ہے کہ :
”شیخ حسین زنجانی ؒ وشیخ علی ہجویری ؒ ہر دو مرید یک پیر بو وند ،وآں پیر قطب عہد بودہ است ،حسین زنجانی ؒ دیر بار ساکن لہا ور بُود ۔بعد از چند گاہ پیر ایشاں خواجہ علی ہجویری ؒ را گفت کہ در لہا ور ساکن شو ۔علی ہجویری ؒ عرضداشت کرو کہ شیخ حسین زنجانی آنجا است ۔فرمودکہ تو برو ۔چوں علی ہجویریؒ بحکم اشارت در لہا ور آمد شب بود بامداداں جنازہ شیخ حسین ؒ رابیروں آور وند ۔“
         (فوائد الفوائد،حصہ اول ،مجلس31) 
ترجمعہ :۔”شیخ حسین زنجانی ؒ اور شیخ علی ہجویری ؒدونوں ایک پیر کے مرید تھے اور وہ پیر اپنے زمانے کے قطب تھے ۔میراں حسین زنجانی ؒ عرصہ سے لاہور میں سکونت پذیر تھے ۔کچھ عرصہ کے بعد ان کے پیر نے شیخ علی ہجویریؒ کو یہ حکم دیا کہ وہ لاہور میں قیام کریں ۔شیخ علی ہجویری ؒنے عرض کی کہ وہاں تو شیخ زنجانی ؒ موجو د ہیں پیر نے حکم دیا کہ تو جا ۔جب شیخ علی ہجویری ؒکے حکم کے بموجب لاہور پہنچے تو رات کا وقت تھا ۔صبح کو آ پ نے دیکھ کہ لو گ شیخ حسین زنجانی ؒ کا جنازہ لیے جا رہے تھے ۔“
اکثر تذکرہ نگار اس روایت کو درست نہیں مانتے مگر میر ے نزدیک باقی تما م تاریخی بیانا ت سے قابل ترجیح ہے کیو نکہ خواہ مخواہ ولی اللہ کے بیان کو جھٹلانا اچھا نہیں باقی اس کی حقیقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔میراں حسین زنجانی ؒ کے تفصیلی حالات میںنے اپنی کتا ب آفتاب زنجان میں بیان کیے ہیں ۔اگر کوئی ان کے حالات کے بارے میں جاننے کا شوق رکھتا ہو تو اسے آفتاب زنجان کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

لاہور میں قیا م

آپ نے چند روز میںلاہور شہر کی آبادی کا مکمل جائزہ لیا اس وقت کے لاہور کو چل پھر کر دیکھا۔لوگوں کی کثر ت ہندو دھرم کی پیرو کار تھی ۔آپ کے لیے یہ ماحول بالکل نیا تھا اور اجنبی بھی تھا ۔لوگ بیگانے تھے ۔کوئی آپ کو جاننے والا نہ تھا کہ لاہور میں اس آنے والے مرد حق کے فیض سے یہ کفر زدہ لاہور شمع توحید کے اُجالوں میں آجائے گا ۔اس وقت کے لاہور میں فلک بوس عمارتیں نہ تھیں ۔سیدھے سادے مکان تھے ۔آبادی بھی کثیر نہ تھی ۔آپ کی زندگی چونکہ کافی متوکلانہ اور درویشوں کی ما نند تھی جنھیں خدا واحد کے سہارے کے علاوہ کسی اور مادی ذریعے اور اسباب پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ 
لہٰذا آپ چند روز کے بعد لاہور شہر کے باہر غرب رویہ ایک مقام پر قیام پذیر ہو گئے ۔یہ جگہ وہی ہے جہاں آج کل آپ کا مزار اقدس ہے ۔جب آپ نے یہاں قیام فرمایا تو اس وقت یہ علاقہ بالکل بے آباد تھا ۔چونکہ اللہ کے فقیروں نے ہمیشہ ہی یا دِ الٰہی کے لیے ویرانوں ہی کوپسند کیا ہے اس لیے آپ نے بھی اسی گوشئہ تنہائی کو پسند فرمایا۔
اللہ کے ولیوں کو چونکہ نہ کوئی خوف اورنہ کوئی غم ہوتا ہے اس لیے بے آباد اور ویران جگہوں پر رہنا کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔اگر چہ آپ کے قیام کی یہ والی جگہ شہر کے قریب تو تھی مگر پر خطر تھی ۔کیونکہ دریائے راوی اس دور میں آپ کی قیام گاہ سے زیادہ دور نہ تھا ۔دریا کی مضافاتی جگہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا گردو نواح دریائی علاقہ ہونے کی وجہ سے پُر خطر حالات سے محفوظ نہ تھا ۔اس لیے اگر غور کیا جائے تو انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صرف خدائے واحد کے بھروسے پر کتنی پر خطر جگہ پر آ بیٹھے انسانی زندگی مادی وسائل او ر ضرورتو ں کی محتاج ہے لیکن اللہ کے ولی دنیا کی محتاجیوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اوراللہ اپنے ان بندو ں کی جنگلو ں اور بے آباد جگہوں پر پوری طرح خبر گیر ی رکھتاہے ۔اور انھیں کسی تکلیف کا احساس نہیں ہونے دیتا۔اس لیے اللہ کے بندے بے سروسامانی کے باوجود زندگی کے کئی کئی سا ل خدائے واحد کی مدد سے گزار لیتے ہیں ۔انھیں ایسی تنہائی میں اللہ کی محبت اور یادالٰہی کے وہ لمحات نصیب ہوتے ہیں جو دنیا داروں کو اپنی پر شکوہ رہائش گاہوں میں زندگی بھر نصیب نہیں ہوتے اے میرے دوست !اللہ والوں کی زندگی کے شب و روز بڑے ہی نرالے ہوتے ہیں رات کے پچھلے پہروں میں جبکہ دنیامحو خواب ہوتی ہے وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں وہ اپنے سجدوں میں مخلوق کی بھلائی مانگتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب اللہ والے دنیا سے پردہ کرجاتے ہیںتو اللہ والوں کے ویرانے ہی دنیا کی رونقوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔

تبلیغ اسلام


تبلیغ اسلام 

اولیاءاللہ کی زندگی کا اصل مقصد ہی تبلیغ دین ہے کیونکہ دین اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کا حقیقی فریضہ اولیاءاللہ ہی نے ادا کیا ہے ۔اور اللہ والوں ہی کے دم قدم سے اسلام تما م دنیا میں پھیلا ہے ۔اسلام کے پھیلاﺅ میں جو کام اولیاءاللہ کے اخلاق و کردار،اور شیریں زبان نے جو کیا وہ شاہوں کی تلوار نے نہیں کیا ۔اللہ کے دوست چونکہ حق ہوتے ہیں اور ان کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی کٹھیالی میں کندن بنی ہوتی ہے ۔اس لیے ان کے قول و فعل میں بڑا اثر ہوتا ہے ۔جو بات کہتے ہیں وہ دلوں کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے لہٰذا ان کے پر اثر کلام کی بنا پر لو گ اسلام سے متاثر ہوکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتے ہیں۔
حضرت سید علی ہجویری ؒ کا لاہور میں آنے کا اصل مقصد ہی لوگوں کو دین حق کی طرف دعوت دینا تھا اور اسی مقصد کی خاطر اپنے آبائی وطن غزنی کو چھوڑ کرسفر کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے بلادِ ہند میں تشریف لائے ۔آپ نے لاہور میں قیام کرتے ہی اس سعادت مند فریضے تبلیغ کا آغاز کردیا۔آپ کے پاس جو آتا اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے تر غیب دیتے ۔اسے دین اسلام کے عقائد سے آگاہ فرماتے اور اس دین کی صداقت کا اظہار کرتے اور اس کے لیے بارگاہ رب العز ت میں دعا فرماتے تاکہ اللہ اسے دولت ایمان سے مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔لوگ آتے اور اللہ کے ولی کی دعائیں لے کر چلے جاتے جس کی قسمت کاستارہ جاگ اٹھتا وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوجا تا۔
آپ کے دور میں آپ کے آنے سے پہلے یہاں اسلام کی روشنی پھیلنا شروع ہو چکی تھی ۔آپ کے تشریف لانے سے پہلے جو بزرگ یہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے چکے تھے یا دے رہے تھے ان کی کاوشوں کی وجہ سے لوگ مسلمان ہوچکے تھے مگر اس کے باوجودشہر میں ہندوﺅں کی بہت ساری اکثریت موجود تھی ۔شہر میں سورج دیوتا کا مندر اور لوکا مندر کے نام کی ہندوﺅں کی عبادت گاہیں تھیں ۔ان میں ہندو پرہتوں کی اجارہ داری تھی ۔اور یہ لوگ تبلیغ اسلام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے ۔بہر حال اللہ والوں کے سامنے دنیوی روکاوٹیں ایک نہ ایک دن منہدم ہوجاتی ہیں ۔آپ عرصہ 23 سا ل لاہورمیں رہے اور اس عرصہ کے دوران دن رات دین اسلام کی تبلیغ میں سر گرم عمل رہے ۔
آپ کے پاس آنے والے لوگوں کو آپ کی روحانیت کے باعث دینی و دنیوی فیوض و برکات حاصل ہوتے تھے ۔آپ کی دعاﺅں سے کئی مریضوں کو شفاءمل گئی ۔لوگوں کی مالی تنگی اورعسرت خوشحالی میں تبدیل ہوگئی ۔آپ کی دعاﺅں کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی اللہ نے دلی مرادیں پوری کیں ۔آپ کے پاس آنے سے غمزدہ لوگوں کے غم کا مداوا ہوتا تھا ۔پریشان حال آتے تھے ،سکون کی دولت لے کر جاتے تھے ۔غرضیکہ جو بھی جس نیت سے آتا ا للہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے آپ کی عزت افزائی کے لیے اس کا کام کر دیتا ۔اس طرح لوگوں کو جب اپنی نجی زندگی میں آپ کے باعث راحت ملتی تو وہی لوگ آپ کی روحانی برکات ،کمالات اور صداقت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے اس طرح آپ کے ۴۳سالہ عرصہ قیا م کے دوران بے شمار غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔
سوانح عمر ی حضرت علی ہجویری ؒ میں لکھا ہے کہ آپ کے قدم مبارک کی وجہ سے اہل پنجاب اور اہل لاہور کو بالخصوص بہت سے روحانی فیوض نصیب ہوئے اور سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو آپ کے اخلاق حسنہ اور کلام پر تاثیر سے اسلام کی لازوال نعمت میسر ہوئی ۔آپ کی زندگی اور آپ کے کلام اور کام نے وہ کام کیا جو تیر و تفنگ ،تنع و تبر اور توپ و بندوق سے بھی ممکن نہ تھا ،لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میںداخل ہوتے تھے اور اس مظہر نور خدا ،عارفوں کے پیر اور کاملوں کے رہنما کی توجہ کی وجہ سے تاریکی سے روشنی اور جہالت سے شائستگی ،بے علمی سے علم اور کفر سے اسلام میں آتے تھے بلکہ اس خطہ کی خوش نصیبی تھی کہ خدائے عزوجل نے آپ جیسی ہستی کو یہاں مامور فرمایا جہان نہ صرف آپ کی حیات میں لوگ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے بلکہ آپ کے وصال مبارک کے بعد بھی مرجع خلائق مزار پر ولی ،غوث ،قطب ،ابدال اور قلندر حاضر ہوتے اور اپنی روحانی منازل کی تکمیل کرتے رہے ہیں ۔آپ کی تبلیغ کے بارے میں مفتی غلام محمد سرور لاہوری نے حدیقیہ الاولیاءمیں لکھا ہے کہ حضرت سید علی ہجویریؒ نے لاہور میں آکر ہنگامہ فضلیت و مشائخییت گرم کیا ۔دن کو طالبعلموں کی تدریس اور را ت کو طالبان حق کی تلقین ہوتی ۔ہزاروں جاہل ان کے ذریعہ عالم،ہزاروں کافر مسلمان ،ہزاروں گمراہ رو بہ راہ ،ہزاروں دیوانے صاحب عقل و ہوش ،ہزاروں نا قص کامل اور ہزاروں فاسق نیکو کار بن گئے ۔تمام زمانے نے ان کی غلامی کو اپنانا فخر تصور کیا ۔اس وقت لاہور مرجع علماءوفضلا تھا ۔دور دور سے لوگ آکر فیض یاب ہوتے ۔
ایک تذکرے میں لکھا ہے کہ امیر سبکتگین کی پنجاب میں آمد سے لے کر سلطان مسعودغزنوی کے اقتدار کے خاتمے تک یہ خطہ مختلف نشیب وفراز سے دو چار ہوا۔کتنی بار یہاں مسلمان آئے اور ان کے حکمران وقتی طور پر کامیابی حاصل کر کے چلے گئے ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد پھر اہل ہندو کا زور ہو گیا اور بعض دفعہ تو نوبت یہاں تک آپہنچی گئی کہ ہندونے جوش انتقام سے مغلوب ہوکر مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا ان کی املاک لوٹ لیں ۔اور مساجد کو منہدم کر دیا ۔
ایک مورخ کے بیان کے مطابق سلطان مسعود غزنوی کے عہد اقتدار کے بعد راجے جے پال کے بیٹے اننگ پال نے لاہور پر اس زور سے حملہ کیا کہ یہاں کے صرف ایک محلے میں دو ہزار مسلمانوں کی لاشیں دفن کی گئیں ۔اور مسلمانوں کا وجود عنقا ہو گیا اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حضرت علی ہجویری ؒ کو اپنا تبلیغی مشن جا ری کرنے میں ہوش رُبا تکالیف برداشت کرنا پڑیں ۔جن سے ان کے پیشرو بزرگوں کو بہت کم دو چار ہونا پڑا ۔
کیونکہ حضر ت علی ہجویری ؒ کے زمانے میں لاہور کی فضا مسلمانو ں کے حق میں بڑی باساز گار تھی ۔اور ہنود مسلمانو ں کی شکل دیکھ کر ہی مشتعل ہو جاتے تھے ۔ان حالات میں حضرت علی ہجویری ؒ کا لاہور میں تشریف لانا اور اسلام کی تبلیغ کر نا یقینا جہاع با لسیف سے بڑا کارنامہ ہے ۔اور اس کے لیے انھیں بڑی صوبتیں اٹھانا پڑیں اور اس مشن کو سخت نا خوشگورا ماحول میں نبھا نا پڑا۔
(آفتاب ہجویر )

لاہور میں تعمیر مسجد 

حضرت سید علی ہجویریؒ جب لاہور میںقیام پذیر ہوگئے تو انھوں نے جس چیز کی سب سے زیا دہ ضرورت محسوس کی وہ مسجد تھی ۔مسجد چونکہ اجتماعی عبادت اور تبلیغ اسلام کے لیے بنیا دی حیثیت رکھتی ہے۔اس لیے حضرت نے قیام کے کچھ عرصہ بعد تعمیر مسجد کی طرف توجہ دی اپنی قیام گا ہ کے پاس ہی ایک جگہ پر مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد خود اپنے دستے مبارک سے رکھا پھر اس کی تعمیر پر سارا خرچہ اپنے پاس سے کیا اور خوبی کی بات یہ ہے کہ اس مسجد کے بنتے وقت آپ نے خود مزدور وں کی طرح کام کیا اور بڑی محبت اور جذبے کے ساتھ سامان تعمیر اپنے سر اٹھایامسجد ایک بڑے کمرے پر مشتمل تھی جس پر لکڑی کی چھت ڈالی گئی۔
لاہو ر شہر میں یہ پہلی مسجد تھی جو ایک ولی اللہ کے ہاتھو ں تعمیر ہوئی اس مسجد کی تعمیر دارا شکوہ کی کتاب سفینة الاولیاءکے مطابق 431ھ میں ہوئی ۔آپ کی یہ تعمیر کردہ مسجد صدیوں تک قائم رہی ۔اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں دریائے راوی میں زبردست سیلاب آیا تو شہر میں نشیبی علاقہ کی دیگر عمارتوں کی طرح مسجد کو بھی سخت نقصان پہنچا ۔بعد ازاں چوہدر ی غلام رسول نے مسجد قدیم کی جائے محراب کو سنگ مرمر کی ایک سل کے ذریعے سے قائم رکھتے ہوئے اس مسجد کو از سر نو تعمیر کرایا ۔مورخین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر نو میں گلزار نامی ایک شخص نے بھی حصہ لیا ۔اس مسجد کی تعمیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے یہی وسیع مسجد تھی جس کی بنیاد رکھنے کا شرف حضرت داتا گنج بخش ؒ کو نصیب ہوا اور غالبا ً یہی وجہ ہے کہ اولیاءمشائخ کے تذکروں میں اس مسجد کو کعبہ پنجاب و ہند کے نا م سے یا د کیا گیا ہے ۔وہ مسجد جس کی تعمیر حضرت داتا گنج بخش ؒ کے ہاتھوںہوئی اور جہاں آپ امامت کرایا کرتے تھے ،کتنی باعظمت اور مقدس تھی ۔

درسگاہ 

جو مسجد آپ نے صلوة پنجگانہ کے لیے تعمیر کی تھی ۔اس کو آپ نے درس کے لیے بھی استعمال کیا اور فارغ اوقات میں اسی مسجد میں آپ نے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا شروع کی اوریہاں آپ لوگوں کو درس بھی دیتے او ر دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کا پر چار بھی کرتے تھے ۔اس طرح شروع شروع میں بے پنا ہ لوگوں کو اپنے درس سے مستفید کیا ۔اس مسجد کے ساتھ آپ نے ایک حجرہ تعمیر کرا لیا تھا ۔تبلیغ و تدریس کے بعد آپ اسی حجر ہ میں استراحت فرماتے تھے ۔یہ مسجد اپنی جگہ سے بے نشان ہوگئی ہے البتہ اس کانشان اس رنگ میں آج بھی موجود ہے کہ وہاںپر کالے نشان کے ذریعے مسجد کی نشاندہی کر دی گئی ہے ۔
 آپ نے درس وتدریس کے بارے میں خود رسالہ کشف ِ اسرار میں تحریر کیا ہے کہ جب میں ہندوستان پہنچااور نواحِ لاہور کو جنت نظیر پا یا تو یہیں بیٹھ گیا اور لڑکوں کو پڑھانا شروع کیا ۔لیکن جب مجھے معلوم ہواکہ اس طریق سے حکومت کی بُو دماغ میں پید اہو رہی ہے ، تو میں نے لوگو ں کو درس دینا چھوڑ دیااور پھر اس کا نا م نہ لیا۔

لاہور میں دو بار تشریف آوری 

آپ لاہور میں دو بار تشریف لائے ۔پہلی با ر431ھ میں آئے اور یہاں 21سا ل سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد واپس اپنے مرشد کے پاس گاﺅں بیت الجن جو شام میں دمشق کے قریب واقع تھا گئے ۔اور آپ کی موجودگی میں آ پ کے مرشد کا انتقال ۳۵۴ھ میں ہوا ۔ان کے وصال کے بعد آپ دو بارہ لاہور تشریف لائے اور علم و عرفان کے دریا بہانے میں مصروف ہو گئے ۔مگر بعض اہل تحقیق نے اسے قیاس آرائی قرار دیا ہے ۔واللہ اعلم بالصواب !

کشف و کرامات

کشف و کرامات 
کرامت کا لفظ کرم سے ہے ۔اللہ تعالیٰ کے کرم سے ایسا فعل جو اس کے ولی سے سر زد ہو جس سے انسانی عقل اور قوت عاجز ہو جائے ،کرامت کہلاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ولیوں کے سامنے جب باطل قو ت آ کر ٹکر لیتی ہے تو اللہ اپنے ولیوں کو سچا کرنے کے لیے ان سے ایسی طاقت کا اظہار کرواتا ہے جس سے باطل عاجز ہوجا تا ہے ،تو یہ کرامت بن جاتی ہے ۔صوفیا ءکے نزدیک اللہ کے بندوں سے کرامت کا سر زد ہونا برحق ہے ۔جس طرح ولایت نبوت کے زیر سایہ ہے ایسے ہی کرامت بھی معجزہ کے تابع ہے یعنی ولی کی کرامت بنی کے معجز کا عکس ہے ۔نبوت معجزے کے اظہار سے اثبات نبوت کا دعوی ہے ۔ولی ، نبی کے دعوی کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے ،یعنی اس کے تابع ہوتا ہے ۔
معجز ہ کا ظہور پیغمبر سے اور کرامت کا ظہور اللہ کے ولی سے ہوتا ہے ۔صاحبِ معجزہ شروع میں تصر ف پیدا کر سکتا ہے کیونکہ وہ خدا کانبیہوتا ہے اور صاحبِ کرامت کے لیے اتباع شریعت ضروری ہے ۔کیونکہ ولی کی کرامت شرع کے بر عکس نہیں ہوتی ہے ۔بلکہ عین شرع کو حق ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔
کرامت اللہ تعالیٰ کی عنائتوں میں سے ہے ۔حضرت سید علی ہجویری ؒ کاملین میں سے ہیں ۔اس لیے آپ سے کر امات کا اظہا ر ہوا ۔اللہ تعالیٰ نے آ پ کو کرامات کے ظہور سے مکرم کیا ۔بیشمار کرامات آپ سے سر زد ہوئیں مگر وہ صفئحہ قرطاس پر نہیں آسکیں ۔آپ کی کرامتوں میں سے جو تذکروں میں موجود ہیں وہ حسب ِ ذیل ہیں :

بے شمار ہندوﺅں کا مسلما ن ہونا 

سوانح حیات حضرت داتا گنج بخش ؒ میں لکھاہے کہ حضرت سید علی ہجویری ؒ ایک مرتبہ شہر میں اس طرف گئے جہاں راستے میں ہندوﺅ ں کے مند ر واقع تھا ۔آج کل یہ علاقہ رنگ محل کے قریب پا نی والا کے نا م سے منسوب ہے ۔یہاں اس دور میں راوی مند ر تھا ،جہاں کئی ہندو بتو ں کی پوجا میں مصروف رہتے تھے ۔آپ نے مندر کے قریب جاکر دیکھا کہ ایک ہندو ایک بت کے سامنے کھڑا ہے اور ہاتھ میں گندم کی روٹی کی بنی ہوئی چوری ہے آپ نے بت کو مخاطب ہوکر کہا کہ اللہ کے حکم سے چور ی کھاﺅ۔تو وہ بت چوری کھانے لگا ۔کچھ اور ہندو بھی وہاں موجو د تھے ان میں ہندو پروہت بھی تھا ۔ہندو پروہت کو بڑا دکھ ہوا کہ ہم سے ایسے واقعا ت نہیں ہو تے اس لیے ہماری توہین ہوئی ہے لہٰذا وہ ا س ہندو سے ناراض ہوگیا جس کے ہاتھ میں چوری تھی ۔بہانہ بنا کر پروہت نے کہا تمھارے اس طرح کرنے سے دیوتا جی ہم سے ناراض ہوگئے ہیں ۔لہٰذا آج سے ہمارا اور تمھارابائیکاٹ ہے ۔
کچھ روز کے بعد وہ چوری والا ہندوآپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضرت !لوگ اس روز کے واقع سے انکار کررہے ہیں ۔میری بات کو کوئی سچ نہیں مانتا ۔آپ نے فرمایا تم اپنے رشتہ داروں اور دیگر احباب کو اکٹھا کر لو اور اللہ کی طاقت دیکھ لو ۔حاضرین جمع ہو گئے ۔آپ نے پھر بت کو حکم دیا چوری کھاﺅ تو وہ چوری کھانے لگا ۔ہندو لوگ یہ واقعہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے تو آپ نے لوگوں سے کہا کہ اللہ ہر کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے لہذا تم ان بے جان بتوں کی پوجا سے تو بہ کر لو اور اللہ کے سچے دین میں آجاﺅ۔تو آپ کی اس توجہ سے بے شمار لوگ کلمہ پڑ ھ کر مسلمان ہوگئے یہ واقعہ پہلے لوگوںمیں سینہ بہ سینہ تھا ،لیکن کچھ عرصہ سے لوگوں نے کتابوں میں نقل کر دیا حقیقت اللہ کو معلوم ہے۔

دودھ میں برکت کا واقعہ 

روایت مشہور ہے کہ ایک روز حضرت سید علی ہجویری ؒ اپنی قیام گاہ پر تشریف فرما تھے اور یاد الٰہی میں مصروف تھے ۔ایک بوڑھی عورت اس طرف سے گزری جس کے سر پر دودھ کا مٹکا رکھا ہواتھا ۔آپ نے اس عورت سے پوچھا کہ تم اس دودھ کی قیمت لے لو اور یہ دودھ ہمیں دے جاﺅ۔اس عورت نے کہا کہ میں یہ دودھ آپ کو نہیں دے سکتی ۔کیونکہ ہم یہ دودھ رائے راجو کو دیتے ہیں ۔اگر نہ دیں تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہماری بھینسوں کے تھنوں سے دودھ کی بجائے خون نکلنے لگتا ہے ۔آ پ نے عورت کی بات سن کر کہا کہ یہ دودھ ہمیں دے جاﺅتو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تمھاری بھینسوں کے تھنوں سے خون نہیں نکلے گا ۔اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ دودھ دیں گی انشاءاللہ !اس کے علاوہ ہر قسم کی آفت سے بھی محفوظ رہیں گی یعنی تمھیں کسی قسم کا نقصان نہیں ہو گا ۔آ پ کی ایما ن فروز باتوں سے وہ عورت اس بات پر رضا مند ہوگئی کہ دودھ آپ کو دے جائے ۔چنانچہ اس نے دودھ آپکو دے دیا ۔اور واپس لوٹ گئی شام کو جب اس نے اپنے جانوروں کو دو ہا تو جانوروں نے پہلے کی نسبت بہت زیادہ دودھ دیااس کے سب برتن بھر گئے ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے دودھ میں بے پناہ برکت ڈال دی ۔
یہ خبر بہت جلد لاہور میں پھیل گئی ۔آخر یہ بات لاہور کے گردو نواح کے دیہاتوں میں جا پہنچی کہ لاہو ر کے باہر ایک اللہ کا فقیر ہے اگر اسے دودھ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ ا س کے دودھ میں برکت ڈال دےتا ہے اور دودھ پہلے کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے ۔چنا نچہ لو گ برکت کی خاطر دودھ آپ کے پاس لے آتے ۔آپ ضرورت کے مطابق لے لیتے اور بقیہ دودھ انھی لوگوں میں تقسیم کردیتے اور جب یہ لوگ گھر جا کر اپنے جانوروں کا دودھ دو ہتے تو اس میں برکت شامل ہوجا تی اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہوجاتا ۔
اس کرامت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لو گ جو رائے راجوکودودھ دیتے تھے وہ دودھ دینا چھوڑگئے اور اس کے خلاف ہوگئے ۔وہ اپنے جادو کے زور سے ان سے دودھ کا نذرانہ وصول کرتا تھا ۔اسے بہت تکبر تھا کہ ہما ر ا دودھ کیونکر کوئی بند کر سکتا ہے جب اسے اصل حال معلوم ہوا کہ اللہ کے فقیر کی دعا سے اس کا جادو اب بھینسوں کے تھنوں پر نہیں چلتا تو اس نے سوچا کہ پہلے سے جادو کو تیز کیوں نہ کر دیا جائے اور اس فقیر کو یہاں سے بھگادیا جائے ۔جس کے پاس لوگ دودھ کا تحفہ دینا شروع ہوگئے ہیں مگر اسے کیا خبر تھی کہ اللہ کے فقیر کی کیا طاقت ہوتی ہے۔اللہ کی رحمت اورمددہر وقت ان کی شامل حال رہتی ہے ۔
آخر کار وہ انتقامی جذبے کے تحت ایک روزآپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمارا دودھ تو بند کر وادیا اب ہمارے ساتھ مقابلہ کرو ۔ہم تمھیں اپنی طاقت دیکھاتے ہیں اور تم اپنی طاقت دیکھا ﺅ ۔دیکھیں کون جیتتا ہے اس کا خیال تھا کہ سادہ سا فقیر میرے آگے کیسے ٹھہرسکتا ہے میں اسے اپنے علم کی بناءپر زیر کرکے یہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کردوں گالیکن اسے کیا معلوم کہ اللہ کے فقیروں کے پاس کتنی بڑی روحانی قوت ہوتی ہے کہ جس کے سامنے دنیوی طاقت ہیچ ہوجاتی ہے ۔
آخر اس نے کہا کہ ہماری طاقت دیکھو ،یہ کہہ کر اس نے اپنی زبان میں کچھ پڑھااور ہوا میں اڑ نے لگا ۔اور آہستہ آہستہ اوپر فضا میں بلند ہونا شروع ہو گیا ۔حضرت سید علی ہجویر ی ؒ نے جب یہ دیکھا تو دل میں یہ دعا کی،یا الٰہی !اب میری عزت کا مسئلہ تیرے ہاتھ ہے ۔اس دعا کے بعد آپ نے اپنی جوتیوں کی طرف دیکھا تو وہ فوراًہی ہوا میں بلند ہو کر اس کے سر پر پڑنے لگیں ۔اوروہ مزید اوپر جانے سے رک گیا اور جوتے پڑنے سے آہستہ آہستہ نیچے زمین کی طرف آنے لگا ۔آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ زمین پر آگیا ۔اس کے جادو نے اس کاساتھ نہ دیا اور وہ اپنی برتری منانے میں ناکام ہوگیا غرضیکہ حق کے سامنے باطل کی کوئی پیش نہ گئی ۔
مگر اس کی ہار کیا تھی وہ تو اصل میں جیت گیا ۔فوراًاس کا ضمیر بیدار ہوا کہ میں نے جو کچھ آج تک کیا ہے اس کی کچھ حقیقت نہیں ۔اللہ کے بندے آخر اللہ کے بندے ہی ہیں ،جہاں تھوڑی دیر پہلے اس کے دل میں بے شمار خداوﺅں کو پوجنے کا نظریہ تھا وہ تبدیل ہو گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ حضرت علی ہجویر ی ؒ کا خدائے واحد ہی سچا ہے ۔وہ زبان جس پر جادو کا ورد تھا اس پر اللہ تعالیٰ کی صداقت بو ل اُ ٹھی ۔
آخر وہ حضرت علی ہجویری ؒ کے قدمو ں میں گر گیا اور عرض کی کہ حضرت !کہ مجھے بھی راہ دکھلا دیجیئے جس پر آپ گامزن ہیں ۔چنانچہ کلمہ طیبہ پڑھ کر آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا ۔کیسی اللہ کی شان ہے کہ سرکار کو زیر کرنے آیا تھا ،خو د زیر ہو کر چلا ۔کفر کے لیے آیا تھا صاحب ایما ن ہو گیا ۔یہ ہے حضرت علی ہجویر ی ؒ کی نگاہ کی کرامت کہ اس کرامت سے اس کافر کی کایا پلٹ گئی اور وہ مسلمان ہو کر معزز اور مکرم ہو گیا ۔
تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے رائے راجو کو پنجاب کا نائب حاکم لکھا ہے اور کسی سے لاہو ر کا حاکم ،کسی نے رائے راجو کو جو گی لکھا ہے ۔بہر کیف وہ جو کچھ بھی تھا اس کے پاس سفلی علم تھا جس کی بنا ءپر اس نے لوگوں کو گرویدہ کر رکھاتھا ۔مگر اس کا علم اللہ کے ولی کے سامنے ہیچ ہو گیا ۔اور وہ ہر طرح سے بے بس ہو گیا لیکن اس کے بے بس ہونے سے اس کا مقدر جاگ اٹھا اور وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر راہِ سلوک پر گامزن ہوگیا ۔تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ پہلا ہندو تھا جو حضرت سید علی ہجویری ؒ کے ہا تھ پر مسلما ن ہوا آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور اسے شیخ ہندی کے لقب سے نوازا ۔ان کے مفصل حالا ت میں نے الا ولیا ئے لاہور میں ایک مقام پر درج کیے ہیں 

دین حق کی سر بلندی کا واقعہ 

حضرت علی ہجویری ؒ نے لاہور میںجب دینِ حق کی تبلیغ شروع کی تو لاہور میں ہندو دھرم پورے عروج پر تھا ۔ہندو پروہتوں کو اپنے دین پر بڑاناز تھا۔وہ کلمہ حق سننے کو بالکل تیا ر نہ تھے مگر آپ تو توحید و رسالت کی شمع روشن کرنے ہی کے لیے لاہور آئے تھے ۔تو آپ غیر مسلموں میں جہاں کہیں موقع پا تے خدائے واحد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے اگر کوئی آپ کے پاس چل کر آتا تو اسے بھی توحید و رسالت کا درس سناتے ۔ایمان لانے کی طرف مائل کرتے اور اس کے صاحب ایمان ہونے کی دعا کرتے ۔اللہ کے فضل و کرم سے آہستہ آہستہ لوگ آپ کی دعوت حق کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے ۔کئی لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔غرضیکہ آپ کے عقیدت مندوں میں دن بدن اضافہ ہونے لگا اور آپ کی شہرت پورے لاہو ر میں پھیل گئی کہ اللہ کا ایک ولی لاہور میں شہر کے غر ب رویہ رہتا ہے جو دین اسلا م کی تبلیغ کرتاہے ۔
آخر آپ کی تبلیغی سر گرمیوں کی اطلا ع لاہور کے حا کم کو بھی ہوگئی ۔جب اسے آپ کی توحید و رسالت کا علم ہوا تو وہ بھی آگ بگولہ ہوا اور انتقامی آگ میں بھڑ ک اٹھا اس نے اپنے سپاہیوں کو بلوایا اور کہا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے شہر میں ایک مسلما ن آکر اپنا دین پھیلا رہا ہے اور تم سوئے ہوئے ہو ۔فوراً اس مسلمان کے تبلیغ کے سلسلہ کو ختم کیا جائے اور اس فقیر کو شہر سے باہر نکال دیا جائے ۔
رات ہوئی تو ہندو سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت سید علی ہجویر ی ؒ کی قیا م گاہ پر آگیا آتے ہی انھوں نے صورتحال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اللہ کا ایک دوست ایک جونپڑی کے اندر اللہ کی یاد میں بیٹھا ہو اہے ۔ذکر الہٰی جاری ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں لاہور کے حاکم نے بھیجا ہے کہ آ پ کو یہاں سے نکال دیں ۔کیونکہ آپ کی تبلیغ سے ہندو دھر م کو بہت نقصان ہورہا ہے ۔ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارا مذہب ختم ہوجائے اور دین اسلام چھا جائے ۔
آپ نے فرمایا کہ میں تو اللہ کی توحید کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچانے آیا ہوں تاکہ غیر مسلموں کی عاقبت درست ہو جائے ۔اور وہ دین حق پر ایمان لے آئیں انھوں نے آپ کی باتیں سن کر کہا کہ ہم نہیں جانتے ۔ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ آپ یہاں سے کوچ کر جائیں اور کہیں اور چلے جائیں ۔آپ نے کہا کہ میں تو یہاں اللہ کی رضا اور اسی کے حکم سے آیا ہوں ۔اب جو بھی میر ے ساتھ ہو ،اللہ میر ا حامی و ناصر ہے آخر حاکم کے بھیجے ہوئے سپاہی سختی پر اتر آئے اور انھوں نے آپ کی جونپڑی کو آگ لگانے کی کوشش کی مگر اسے آگ نہ لگی ۔آخر کار ناچار ہوکر سوچنے لگے کہ یہ کوئی اللہ کا فقیر ہے ۔ہم خواہ مخواہ اس سے زیادتی کرکے اللہ کی ناراضگی کو مول نہ لیں ۔کہیں ہمارا کوئی نقصان نہ ہوجائے واپس لوٹ کرحاکم کو سارا واقعہ سنا دیںگے کہ وہاں ہمارا کوئی بس نہیں چلتا ۔آخر وہ واپس لوٹ گئے ۔اگلے روز انھوں نے اپنی کاروائی کا سارا قصہ حاکم کو بتا دیا ۔اس نے بات سن کر اپنے سپاہیوں کو ڈانٹا اور کہا کہ تمھیں چاہیے تھا کہ اس فقیر کو ضرور کسی نہ کسی طریقے سے شہر سے نکا ل باہر پھینکتے ۔
کرنا خد ا کا ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے حاکم لاہور کے محل میں آگ لگ گئی اور وہ قابو سے باہر ہوگئی اور بجھنے پر نہ آرہی تھی کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات اٹھی کہ کل رات میں اس فقیر کی جونپڑی کو جلوانے لگا تھا ، شاید اسی وجہ سے وہی سزا مجھے مل گئی اللہ کے اٹھا ئے ہوئے اس خوف سے اس کا دل بیدار ہوگیا اور وہ خود چل کر حضرت سید علی ہجویر یؒ کی قیام گاہ پر آیا اور معافی کا طلب گار ہوا آپ نے اس سے درگزر فرمایا اور اسے معاف کر دیا ،جونہی اسے اللہ کے ولی کامل سے معافی ملی تو اس کے محل کی آگ خود بخود ٹھنڈی ہو گئی ۔آخر کا ر وہ آپ کی روحانی طاقت سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا ۔
یہ کرامت میں نے کتا ب ” مقاماتِ اولیا ء“ سے لی ہے مگر اس کا بھی تذکر وں میں کہیں ذکر نہیں ۔اللہ بہتر جاننے والا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔

محراب سے کعبہ نظر آنے کا واقعہ 

اللہ کے بیشتر اولیاءجہاں کہیں بھی گئے وہا ں سب سے پہلے انھوں نے اللہ کا گھر یعنی مسجد ہی بنائی ۔کیو نکہ مسجد اسلامی معاشرت کی بنیا د ہے اس لیے حضرت سید علی ہجویری ؒ کو جب لاہور میں آئے ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا تو آپ نے سوچا کہ اب یہاں مسجد کی بنیا د رکھی جائے تاکہ جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں انھیں اللہ کی عبادت کے طریقے سکھلائے جائیں اور نما ز کی عملی تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔اس ضر ورت کے پیش نظر آپ نے اپنے عقیدت مندوں میں مسجد کی خواہش کا اظہا ر کیا ۔چند ساتھیوں نے مکمل تعاون کا اظہا ر کیا ۔چنانچہ ایک روز مسجد کا تعمیراتی سا ما ن اکٹھا کر کے مسجد کی بنیا د رکھ دی ۔آہستہ آہستہ مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی ۔آخر کچھ دنوں کے بعد مسجد تعمیر ہو کر مکمل ہوگئی ۔ادھر اُد ھر کے لوگو ں نے آکر دیکھا کہ مسجد تو بن گئی ہے لیکن اس کا محراب کعبتہ اللہ کی سمت یعنی مغرب کی طرف بالکل سید ھا نہیں ہے بلکہ تھوڑاس ٹیڑھا ہے آپ نے لوگوں کا اعتراض سن لیا ۔جب مسجد ہر لحاظ سے مکمل ہوگئی تو آپ نے لوگوں کو مدعو کیا کہ آﺅ سارے اس مسجد میں نماز ادا کریں ۔
آخر نماز کا وقت ہوا ،اذان ہوئی ۔اس کے بعد نماز کی جماعت کھڑ ی ہوئی آپ نے خود امامت فرمائی ۔جب لوگ نماز سے فارغ ہوگئے تو آ پ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مسجد قبلہ رخ نہیں ہے ۔آﺅ دیکھو کہ قبلہ کس طرف ہے جو انھوں نے نظر اٹھاکر دیکھا تو مسجد سے کعبة اللہ نظر آنے لگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولی کو مکرم رکھنے کے لیے مسجد سے لے کر کعبةاللہ تک تمام حجابات کو درمیان سے اٹھا دیا۔ آپ نے کہا کہ دیکھا کہ جس مسجد سے براہِ راست کعبہ نظر آرہا ہے کیا وہ ٹیڑھی ہے ۔سب لوگ اس با ت پر حیران ہو گئے کہ یہ اللہ کا کتنا عظیم اور باکمال ولی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اعتراض کو کس شان سے دور فرمادیا ہے ۔تمام اعتراض کرنے والے بڑے نادم ہوئے کہ ہم نے حضرت سید علی ہجویر ی ؒ کی تعمیر کردہ مسجد پر اعتراض کیو ں کیا۔دل ہی دل میں بڑی شرمندگی کے ساتھ آپ سے معذرت کی ۔آپ نے فرمایا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔آپ کی یہ کرامت اس دور میں کافی مشہور ہوئی ۔(سیفیئةالاولیا ئ) 

                     لاہور کے ایک سوداگر کا واقعہ 

حضرت نے کشف الاسرار میں ایک جگہ دنیا کوسراسر درد الم کی جگہ قرار دیا ہے عورت کو بے وفا بتایا ہے ۔لاڈلی اولاد کے نقصان بتائے ہیں او ر صبر کرنے اور قسمت سے زیادہ حاصل کر نے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے پر افسوس ظاہر کیا ہے اور اس کی مثال میں لاہور کا یہ چشم دید ہ واقعہ لکھا ہے :۔
فرماتے ہیں کہ لاہور میں ایک سوداگر تھا ،کریم اللہ نام تھا ۔مال اور دولت اس کے پاس باافراط تھا۔اسکے گھر بیٹا پیدا ہوا ۔امام بخش نام رکھا ۔بڑے جشن کیے بڑی خوشی منائی ۔اسی دن خبرآئی کہ جس کارواں میں اس کا مال تھا اس پر ڈاکہ پڑا ہے تھوڑے عرصہ کے بعد ایک اور کارواں کے لٹنے کیخبر آئی او ر لڑکا بھی ناز اور نعمت سے پر ورش پا رہا تھا ۔غرض بے چارہ تنگ ہو کرخود باہرنکلا مگر نا کا م واپس آیا ۔لڑکے کو مکتب میں بیٹھایا ۔جب صاحبزادہ نے استاد کی داڑھی کھینچنا چاہی تو اس نے بھی جواب دے دیا ۔یہاں تک کہ وہ لڑکا آوارہ ہوگیا ۔گھر کی چیزیں بکنے لگیں ۔گھر کی چکی سوداگر کی عورت نے چار درہم میں بیچی اور آخر خاوند سے بے وفا ہوگئی اور یکے بعد دیگرے تینوں درد نا ک موت سے مر گئے ۔
آخر میں فرماتے ہیں کہ تقدیر الٰہی ایسی ہی تھی ۔کسی کو دم مارنے کی طاقت نہیں کہ وہ مالک ہے اور ہم اس کے بند ے ہیں ۔

بھٹی قوم کے قبول اسلام کا واقعہ 

اس دور میں بھاٹی کے علاقے میںبیشتر آبا دی ہندوﺅں کی تھی جو بھٹی کہلا تے تھے اور بھاٹی کی وجہ تسمیہ بھی یہی تھی ۔مسلمان عقیدت مند جو داتا صاحب کی زیارت اور رشد و ہدایت کے لیے آتے تھے ان کا اکثر گزر بھاٹی سے ہی ہو تا تھا ۔چونکہ داتا صاحب کامسکن بھاٹی کے باہر تھا اس لیے ازراہِ عقیدت لوگوں نے بھاٹی کا نام بدل کر آپ کی نام پر ہجویری محلہ رکھ دیا ۔
بھٹی کہلوانے والے ہندوﺅں کو یہ بات ناگوار محسوس ہوئی ۔انھوں نے جے سنگھ کی قیادت میں ایک وفدحضرت سید علی ہجویری ؒ کے پاس بھیجا،جس نے انھیںاپنے جذبات سے آگاہ کیا ۔آپ نے ہندوﺅں کی شکایت کو بڑے ٹھنڈے دل سے سنا اور فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کانام بھاٹی ہی رہے گا ۔
ظاہر ی نمود و نمائش اور خود ستائش کو جب آپ نے ٹھوکر مار دی اور یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ظاہری زیب و زینت گوارانہیں ہوتی اور نہ ہی وہ دنیاوی زیب وزینت کو پسند کرتے ہیںبلکہ ہمیشہ اپنے صفائے بدن کی طرف دھیان دیتے ہیں آپ کے اس فیصلہ سے ہندوبھٹی اور انکے وفد کا لیڈر اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے آپ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر لیا ۔اس دن سے سب بھٹی مسلمان کہلانے لگے اور یہ وہ ہی بھٹی مسلمان ہیں جوجذبہ اسلام سے آج تک سر شار ہیں ۔اس واقعہ کی تصدیق دوسرے مورخین نے بھی کیا ہے ۔جن میں مسعود الحسن بھی شامل ہیں ۔ان کی کتاب ”حضرت داتا گنج بخش اے سپر چوئل بایو گرافی “میں یہ واقعہ بھی درج ہے ۔

آپ ؒ سے ملک ایاز کی عقیدت مندی کا واقعہ 

سلطان محمود غزنوی نے ۴۱۴ھ میں جب لاہور پر حملہ کیا تو راجہ جے پال کا بیٹا راجہ اننگ پال تھوڑے ہی مقابلہ کے بعد دُم دبا کر بھاگ نکلااور لاہور شہر پر محمود غزنوی کا قبضہ ہوگیا۔محمد لطیف مرحوم نے تاریخ لاہور میں لکھا ہے کہ جب محمود غزنوی نے ۴۱۴ ھ میں لاہور پر قبضہ کر لیا تو اپنے محبوب ملازم ملک ایاز کو اس کے اصرار پر ایک محافظ دستہ فوج کے ہمراہ لاہور میںچھوڑدیا ۔یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ ملک ایازکو بزرگانِ دین نے سلطان محمود غزنوی کی ذاتی حفاظت کے لیے مامور کیا ہوا تھا روحانی عالم میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ ایک جری انسان غزنی سے اٹھے گا اور ہندوستان میں کفار کے بت پاش پاش کرکے مسلمانو ں کی عظمت اور شجاعت کا ایسا سکہ جمائے گا کہ یہاں تھوڑے ہی عرصہ میں توحید اور رسالت کا بول بالا ہوجائے گا اس پس منظرمیں اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روشن ہوجا تی ہے کہ جری اور بہادر لشکر میں کچھ ایسے بھی انسان ہوتے تھے جو صر ف خدا اور اس کے رسول کی جانب راغب ہوتے تھے ۔ملک ایاز کانام بھی ایسے بزرگانِ دین میں شمارہوتا ہے ۔محمود غزنوی کو اس پیکر وفا کے ساتھ دلی لگاﺅ تھا ۔جب محمود غزنوی نے اپنا کام مکمل کر لیا تو ملک ایا ز نے کہا کہ میں غزنی نہیں جاﺅ گا ۔کہتے ہیں کہ زندگی میں پہلی بار محمود غزنو ی نے یہ انکار ایاز کی زبان سے سنا ۔غلام کے آگے آقا نے سر تسلیم خم کر دیا اور محمود غزنوی نے اسے لاہور چھوڑدیا ۔
 کافی سے زیادہ سونا ، چاندی ، ہیرے اور جواہیرات اس کے سپرد کرکے غزنی کا مسافر رخصت ہو گیا ۔اسے کیا علم تھا کہ ایاز کا یہ انکار ایک نئے قدم کا اقرار تھا اور یہ نیاقد م راہِ حق کی جانب تھا ایاز نے اب صحبت فقر اختیار کر لی ۔
سلطان محمود غزنوی کے بعداس کا بیٹا سلطان مسعود بنا ۔مگر چند ہی عرصہ کے بعد راجے جے پال کے بیٹے راجے اننگ پال نے ایک زبر دست حملہ کر کے مسعو د سے حکمرانی چھین لی ۔اور جوشِ انتقام میں اس راجہ نے لاہور میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ ایک ہی محلے سے دو ہزار لاشیں اٹھا ئی گئیں ۔اور لاہو رخالی ہوگیا ۔اس دور میں غزنی کا ایک نیا مسافر لاہور میں وارد ہوا ۔فرق یہ تھا کہ غزنی کا پہلا مسافر محمود غزنوی جذئبہ شجاعت سے لبریز تھا اور نیا مسافر روحانیت اور خدا کی وحد انیت کا علم بردار ۔غزنی کا یہ نیا مسافر حضرت مخدوم علی ہجویری ؒ تھا ۔
ملک ایاز کو خواب میں حکم ملا کہ وہ فوری طور پر اب غزنی کے نئے مسافر کا غلام ہوجائے حضرت داتا گنج بخش ؒ کے پاس حاضری دی اور بیعت کے بعد آپ کے ہاتھوں فقر وغنا کا جامہ پہن کر یہ فیصلہ کرلیا کہ اب وہ لاہور کو دوبار ہ آباد کرے گا ۔وہ مسلمان جو لاہور چھوڑ گئے تھے ملک ایاز کی قیادت میں جو ق در جوق واپس آنا شروع ہو گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے لا ہو ردوبارہ آباد ہونا شروع ہو گیا اور اللہ اکبر کی تکبیریں گلی گلی کوچے کوچے بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔محمود کے غلام نے اپنی دولت اور مال و متاع تما م حاجت مندوں میں تقسیم کر دیا اور خود گوشہ نشین ہو گیا ۔ایاز پر یہ عیاں ہو گیا کہ اس کا غزنی جانے کاانکا راور لاہور رہنے پر اصرار ایک حکم خداوندی تھا ۔آخر ۰۵۴ھ میں ملک ایاز نے وفات پائی ۔لاکھو ں فرزندانِ توحید نے نماز جنازہ میںشرکت کی اور اسلام کے عظیم فرزند کو لاہور میں چوک رنگ محل کے قریب سپر دخاک کر دیا لاہور شہر کے عین دل میں واقعہ یہ مزار اس غلام کی عظمت اوربلند کردار کی ایک ناقابل فراموش یاد گار ہے ۔ (کشف کرامات ِ حضرت داتا گنج بخش 

اخلاق حمیدہ

اخلاق حمیدہ 

اللہ والے ، اخلا ق حسنہ کا منہ بولتا شاہکار ہوتے ہیں ۔حضرت سید علی ہجویری ؒ اچھے اخلا ق کی جیتی جاگتی تصویر تھے ۔آپ نے اپنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیر ا ہونے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا اس لیے آپ نے ہر حال میں ہر کام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کی ۔آپ میں اخلاق حمیدہ کے وہ تمام اوصاف موجو د تھے جو ایک باشرع ،متقی اور پر ہیز گار میں ہونے چاہےں اور آپ کی اخلاقی خوبیوں کی بناءپر آپ کے پا س ہر آنے والا آپ کی ذات ِ اقدس سے متاثر ہوتا اور آپ کی نصحیت کو قبو ل کر لیتا ،یہ آپ کے اچھے اخلاق ہی تھے جنھوں نے لاہور میں آپ کے آتے ہی آپ کو شہر ت کے دوام سے بہت جلد اہل لاہور میں متعارف کروادیا۔یہ آپ کے اخلاق حسنہ ہی تھے کہ جن سے بیشمار ہندو متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔آپ کے اخلا ق حمیدہ کے چند پہلو حسب ذیل ہیں ۔

اندازگفتگو 

آپ کا انداز گفتگو بڑا شیریں تھا ۔آپ ہر کسی سے اچھی بات کہتے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھی بات کہنے کا حکم دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق آپ کی گفتگو نیک اور اچھی ہوتی ۔آپ کے سمجھانے کا انداز بڑا ہی ہمدردانہ تھا اس لیے آپ سے کلام کرنے والے کے دل پر آپ کی باتوں کا اثر ہوتا اور وہ آپ کے گر ویدہ ہو جاتا اور دین اسلام قبول کرنے پر فوراًرضا مندی کا اظہار کرتا ۔
یہ آپ کی شیریں کلامی کا اعجاز تھا کہ آپ کے ۴۳ سالہ قیام کے دوران ہندو مسلمان ہوتے رہے ۔آپ کی باتوں نے اس قوم کے دل مو ہ لیے جواسلام کے بالکل خلاف تھی ۔شروع شروع میں جب آپ نے مسجد بناکر درس دینا شروع کیا تو تذکروں میں لکھا ہے کہ بے پناہ لوگ آپ کے درسوں میں آتے ،توان لوگوں کا درس میں بڑے شوق سے آنا آپ کی خوش کلامی ہی کی وجہ سے تھا ۔
حکایت 
آپ کی ہمدردانہ باتوں کا اندازہ اس حکایت سے ہوتاہے جو انھوں نے کشف المحجوب میںیوں بیان فرمائی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ماوراءالنہر کے ایک ملامتی سے ملنے کا اتفاق ہو ا۔صحبت میں کشادگی اور بساط کی کیفیت پیدا ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ بھائی !ان بیہودہ افعال سے تمھار امقصد کیا ہے ۔اس نے کہا کہ مخلوق کو اپنے سے دور کرنا ۔میں نے کہاکہ مخلوق بے شمار ہے اور تیر ی عمر اور زبان اورمکان محدود ،تو مخلوق سے اپنا دامن نہیں چھوڑا سکے گا لہٰذا بہتر یہ ہے کہ تو اسے چھوڑ دے تاکہ اس تکلف سے بچ جائے ۔

حق گوئی 

حضرت سید علی ہجویری ؒ کے اخلاق حمیدہ کاایک پہلو حق گوئی ہے آپ نے زندگی بھر حق کی بات کہی ۔چونکہ آپ کو قرآن و حدیث پر مکمل عبو رحاصل تھا اس لیے آپ نے ہمیشہ جو با ت بھی کی وہ حق کی بنیا د پر کہی ۔آپ حق بیان کرنے ہی کے لیے لاہور تشریف لائے ۔یہ آپ کی حق گوئی ہی تھی کہ آپ کو کہاں سے کہاں لے آئی ۔اور یہاں آکر غیر مسلموں میں اللہ کی تو حید کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا کہ لوگ حق کی طرف مائل ہو کر مسلمان ہوئے ۔دیار غیر میں آکر ان ہندوﺅں کے سامنے حق کی بات کہنا بڑا مشکل تھا ۔جو صدیوں سے بُتوں کے پجاری تھے اور اپنے دین کے خلاف ایک بات بھی سننے کو تیا ر نہ تھے ۔مگر آپ نے اللہ کے بھروسے پر علی الاعلان انھیں حقیقت سے باخبر کیاکہ تم جن بتوں کو پوجتے ہو یہ خدا نہیں ہیں بلکہ میرا اور تمھارا خد ا وہی ایک معبود بر حق ہے ۔جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہمیں رزق دیتا ہے ۔ہماری زندگی اور موت اسی کے ہاتھ ہے ۔
ہندوﺅں کے دیش میں آکر انھیں جھوٹا قرار دینا ہی کوئی معمولی بات نہ تھی ۔مگر آپ نے ہر قسم کے خطرے سے بالا تر ہو کر حق بات کہی ،یہ کتنی بڑی ہمت اور بلند اخلاقی کی دلیل ہے ۔کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ میں علی بن عثما ن الجلابی کہتا ہوں کہ کلام کرنا دو طرح کا ہے اور خاموشی بھی دو طرح کی ہے کلام ایک حق ہوتا ہے ایک باطل ،اورایک خاموشی حصول مقصد پر ہوتی ہے اور دوسری غفلت کی بناءپر ۔گفتگو یا خاموشی کے وقت ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے ۔اگراس کی گفتگو حق پر مبنی ہے تو اس کا کلام خاموشی سے بہتر ہے اور اگر اس کی گفتگو صداقت پر مبنی نہیں تو خاموشی گفتار سے افضل ہے۔اسی طرح خامو ش حصول مقصود یامشاہدہ کی وجہ سے ہے تو کلام سے بہتر اور اگر حجا ب یا غفلت کی وجہ سے ہے توخاموشی سے کلام بہتر افضل ہے ۔اسکے معنٰی میں ایک دنیا حیران و سر گرداں ہے ۔مدعیانِ طریقت کا ایک گرو ہ ہو او ہوس کی بنا پر حقیقت اور معنٰی سے خالی خولی عبارتوں اور الفاظ کا دلدادا ہے اس کا کہنا ہے کہ کلام خاموشی سے بہتر ہے اس طرح جاہلوں کا گروہ جسے راستے کے کنویں کی بھی پہچان نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ خاموشی کلام سے بہتر ہے ۔
یہ دونو ں گروہ ایک جیسے ہی ہیں ۔کسی کو بول دیں یا خاموش کرائیں ۔حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے ۔جو بولتا ہے وہ غلط ہوتا ہے یا صحیح اور جس سے گفتگو کرائی جاتی ہے (تائید ایزدی سے )وہ خطا اور خلل سے محفوظ ہوتا ہے ۔چنانچہ شیطان خو د بو لا تو اس نے کہا کہ اَنَا خَی ±ر µ مِّن ±ہُ( میں آدم سے بہتر ہوں ) اس کے نتیجے کے طور پر اس کے ساتھ جو کچھ ہو اوہ سب کو علم ہے ۔آدم علیہ السلام کی زبان حق تعالیٰ نے کھلوائی تو انھوں نے فرمایا رَبَّنَا ظَلَم ±نَا اَن ±فُسَنَا ۔( ا ے ہمارے رب !ہم نے اپنی جا نو پر ظلم کیا ) چنانچہ انھیں برگزیدگی بخشی گئی ۔
اخلاص 
حضرت سید علی ہجویری ؒ کے اخلاق کا پہلو اخلا ص ہے ۔آ پ جو کام بھی کرتے بڑے اخلا ص سے کرتے ۔آپ نے جتنے مجاہدے کیے وہ بڑی خلوص نیت سے کیے اور اپنے کسی عمل میں کبھی ریا کاری کو شامل نہ ہونے دیا اگر آپ نے لاہور میں آکر سب سے پہلے مسجد کی بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھی تو اس میں اخلاص نیت یہ ہی تھی کہ یہاں اللہ کی مخلو ق عبادت کے لیے آئے ۔آپ کو مسجد بنانے میں کوئی ذاتی غرض نہ تھی صرف رضائے الہی پیش نظر تھی ۔اس کے علاوہ آپ نے لاہور میں تبلیغ اسلا م کا فریضہ سر انجام دیا تو اس میں اخلاص ہی تھا جس کی بنا پر لوگ آپ کے ہم نوا ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
غرضیکہ آپ کے ہر کا م کی بنیاد خلوص تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر کام میں کامیابی عطا فرمائی ۔آپ نے عمر کا بیشتر حصہ سیرو سیا حت میں گزارا اور بہت سے مشائخ کر ام سے ملاقا تیں کیں اور ان کی صحبتیں بھی اختیار کیں مگر اللہ تعالیٰ کی زمین پر پھر نے گھومنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح راضی ہوجا ئے اللہ کی رضا چونکہ اخلاص نیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ،لہٰذا آپ نے جتنی سیر وسیاحت کی ان کی بنیاد میں خلو ص نیت شامل تھی ۔
سخاوت اور فیاضی 
حضرت سید علی ہجویری ؒ بڑے دریا دل اور فیا ض تھے ۔اللہ کی راہ میں جو ہوتا دے دیتے ۔اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی کو دینے سے کبھی گریز نہیں کیا اور نہ ہی کبھی سوچا کہ اب اگر اللہ کی راہ میں جو کچھ ہے وہ دے دیا تو پھر مجھے کیسے ملے گا ۔چونکہ اللہ کے ولی دولت جمع کرنے کے حق میں نہیں ہوتے ان کانظریہ ہے کہ مال ملنے پر ضرورت کے مطابق اپنی ضرورت پوری کر لو اور بقیہ کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو اسی نظریے کے پیش نظر آپ خدمت میں جو کچھ آتا اسے بے حساب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ۔اور پھر سب سے بڑی خوبی ہی ہے کہ جسے دیا اسے زندگی بھر کبھی احسان نہ جتلایا اور نہ ہی کسی قسم کی اس کے بدلے میں کسی سے خدمت لینے کی کوشش کی ۔ غرض یہ کہ آپ حد سے بڑھ کر سخی تھے ۔آ پ نے اللہ کی راہ میں سخاوت کرنے کا ذکر کشف المحجوب میں یوں کیا ہے :
حکایت 
آپ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عراق کے علاقے میں دنیا کی طلب اور اسے خرچ کرنے میں کافی بڑھ گیا اور مجھ پر بہت قرض ہو گیا ۔جس کو کوئی ضرورت ہوتی وہ میرے پاس آجاتا ۔اور میں ان لوگوں کی ضروریا ت کو پورا کرنے میں الجھ کر رہ گیا ۔بزرگان وقت میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا ، دیکھو بیٹا !اللہ تعالیٰ سے اپنی توجہ ہٹا کر ایسے لوگوں کی دلدادی میں مصروف نہ کرو جو خواہشات میں مشغول ہیں اگر کوئی دل اپنے دل سے زیادہ مرتبے والا پاﺅتو اس کی دلدادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ورنہ اس کام سے اپنا ہاتھ ہٹا لو ۔اس لیے کہ خدا کے بندوں کی کفالت خدا کے ذمے ہے اس پر عمل کرنے سے تھوڑے وقت میں میری جان آزاد ہوگئی ۔
اس حکایت سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سخاوت میں اعتدال سے کام لینا بھی ضروری ہے ورنہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
عفو اوردرگزر
حضرت سید علی ہجویریؒ کے اچھے اخلا ق کا ایک پہلو عفوو درگزربھی ہے ۔راہِ حق میں کئی لوگ اللہ کے بندوں کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔بعض اوقات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اس کی جان لینے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔لہذا جب آپ نے لاہور آکر دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا تو ابتدا میں کئی لوگ آپ کے دشمن بنے ۔اور آپ کو کسی نہ کسی بہا نے سے اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ آپ یہاں دین کی تبلیغ کا کام نہ کریں بلکہ کہیں اور چلے جائیں مگر آپ کو راہ ِ حق کی تبلیغ میں بےشمار لوگو ں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔کئی ہندوپروہتوں نے آپ کی سخت مخالفت کی مگر آپ نے ان سے ہمیشہ درگزر فرمایااور ان کے لیے راہِ ہدایت ملنے کی دعا کی ۔
ایسے ہی جب رائے راجو نے جب آپ کی مخالفت کی تو آپ نے اس سے بھی درگزر فرمایابلکہ اس پر ایسی نظر عنایت کی کہ وہ مشرف بہ اسلام ہوکر آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا غرضیکہ آپ نے زندگی کے ہر موڑ پر عفواور درگزر سے کام لیا۔
حکایت 
حضرت علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنے سفر کے دوران کسی بات سے اتنا رنجید خاطر اور زیر بار نہیںہوتا تھا جتنا اس بات سے کہ جاہل خدمت گزار اور کم عقل مقیم مجھے ساتھ لے لیتے اور اس خواجہ کے گھر ،اس دہقان کے گھر لیے پھر تے ۔میرا دل اس سے نفرت کرتا مگر ظاہر سے میں در گزر سے کام لیتا ۔مقیم حضرات جو بے راہ روی میرے ساتھ اختیا ر کرتے رہے ہیں ۔میں نے دل میںعہد کیا تھا کہ اگر کسی وقت میں مقیم ہو گیا تو مسافروں سے یہ سلوک ہرگز نہیں کروں گا، بے ادبوں کی صحبت میں اس کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں کہ ان کے برتاو ¿ میں انسان کو جو چیز اچھی نہ لگے انسان اس سے پرہیز کے قابل ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی درویش ہو کر چند دن ٹھہرے اور دینوی ضرورت کی خواہش کرے تو مقیم کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں کہ اس کی ضرروت فوراًپوری کرے اگر یہ مسافر خالی بے ہمت دعویدار ہے تو مقیم کو بے ہمتی کرنا اور اس کی ناممکن ضروریات پوری کرناضروری نہیں ۔اس لیے کہ یہ دنیا چھوڑنے والوں کا راستہ ہے اگر وہ دنیا کا طالب ہے تو بازار میں جاکر خرید وفروخت کرے یا کسی بادشاہ کے ہاں دریوزہ گری کرے ۔اسے دنیا سے آزاد لوگوں سے کیا واسطہ،
بصیرت
حضرت سید علی ہجوریؒ بڑے صاحبِ بصیرت بزرگ ہوئے ہیں ان کی بصیرت ان کی کتا ب سے واضح طور پر عیاں ہے کیونکہ کتاب میں جہاں کہیں اپنی رائے کا اظہار فرمایا اسے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خصوصی بصیرت سے نوازرکھا تھا۔آپ نے کشف الحجوب میں ایک مقام پر اپنے بصیرت انگیز خیالات کا یوں اظہار فرمایاہے:
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں میں سے شیخ بزرگ اور صفاتِ بشریت سے فانی حضرت ابوعبداللہ محمد بن علی الترمذی رحمتہ اللہ بھی ایک ہیں ۔آپ جملہ علوم میں کامل اور پیشواکی حیثیت رکھتے ہیں اور مشائخ محققین میں سے طریقت کے معاملات میں آپ کی بہت سی کتابوں میں آپ کی کرامات ظاہر ہیں ۔میرے نزدیک آپ بڑے باعظمت بزرگ ہیں اور میرا دل پوری طرح آپ کی محبت کاشکار ہوچکا ہے۔
میرے شیخ نے فرمایا کہ محمد ترمذ ی ایک ایسا دُریتیم ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ علم ظاہر میںآپ کی بہت سی کتب ہیں اور احادیث میں آپ کی اسانید بڑی عالی اور معتبر ہیں ۔آپ نے قرآن کریم کی ایک تفسیر لکھنی شروع کی تھی لیکن عمر نے اس کو مکمل کرنے تک وفانہ کی ۔تاہم جس قدر لکھی گئی وہ بھی اہل ِعلم کے درمیان استفادہ کے قابل سمجھی جاتی ہے۔
 حلم و نرم مزاجی 
حضرت علی ہجویری ؒ بڑے حلم الطبع تھے ۔اگر کسی کو کوئی سمجھانے کی ضرورت پیش آتی تواسے بڑے حلیمانہ ا نداز میں سمجھا تے اور اس کی اصلا ح فرمادیتے کیو نکہ تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کو بڑے بڑے سخت مزاج لوگوں سے واسطہ بھی پڑا جن کی دل آزاری والی باتوں پر انسان کو غصہ آجا تا ہے مگر آپ کبھی آپے سے باہر نہ ہوتے اگرکوئی جواباًسخت الفاظ بھی استعما ل کر لیتا تواورآپ ناراض نہ ہوتے ایک دفعہ آپ کا واسطہ ایک سخت گیر ملامتی سے پڑا لیکن آپ نے اسے بڑے اچھے انداز میں ملامت کی حقیقت کے بارے میں سمجھایا ،تاکہ اس کی اصلاح ہوجائے ۔اس واقعہ کو کشف المحجوب میں آپ نے خود ہی یوں بیان کیا ہے ۔
حکایت 
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ ایسے شخص سے واسطہ پڑا جو بظاہر خود کو شیخ طریقت ظاہر کرتا تھا اور نازیبا حرکات کر کے یہ تا ثر دیتا کہ اس نے ملامت کی را ہ اختیار کر رکھی ہے ۔حالا نکہ وہ ایسا نہیں تھا ۔
ایک مرتبہ اس نے ایک غیر شرعی حر کت کی اور عذر یہ کیا کہ میں نے ایسا ملامت کی خاطر کیا ہے ۔ایک آدمی کہنے لگا یہ کچھ نہیں ۔اس پر وہ غضب ناک ہو گیا میں نے اسے کہا ارے بھائی!اگر تو اس راہ کا راہی اور اس دعوے میں سچا ہے تو تجھے اس شخص کے انکا ر اور اعتراض پر خوش ہونا چاہیے ۔کیونکہ اس سے تیرے مسلک کی تائید اور تیر ے عقیدے کی تقویت ہوتی ہے ۔پھر یہ غصب و غصہ کس لیے ہے ؟تیر امعاملہ حقیقتاًملامت نہیں بلکہ فریب کاری کے مشابہ ہے ۔اور جو شخص لوگو ں کو کسی صحیح کا م کی دعوت دیتا ہے اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دلیل سنت کی تابعداری ہے ۔تم نے تو ظاہر ی فرض ترک کر رکھا ہے اور پھر لوگوں کو دعوت بھی دے رہے ہو تویہ بات دائرہ اسلام میں کیسے آسکتی ہے ۔
آپ نے اسے بڑی نرم مزاجی میں سمجھا یا کہ اگر تم نے ملامت کی راہ اختیا ر کرنی ہے تو پھر اس کا بہتر انداز یہ ہے کہ پہلے زمانے میں ملامت کے لیے کسی برے فعل کا ارتکاب کرنا پڑتا تھا یا خلاف عادت کوئی بات کرنا پڑتی تھی مگراس دور میں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔اس زمانے میں اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کو ملامت کریں تو وہ صرف دو رکعت نماز خشو ع و خضوع کے ساتھ ادا کرے یا کامل طور پر دین و شریعت پر کار بند ہوجائے تو ساری مخلوق اسے منافق اور ریا کار کہنے لگے ۔
(کشف المحجوب)
خودداری 
خودداری کا وصف آپ کی طبیعت میں بڑا نمایا ں تھا ۔آپ چونکہ روشن ضمیر تھے اور روشن ضمیر ہمیشہ خودداری سے کام لیتا ہے اس لیے اپنے ذاتی معاملات میں خودداری اور عزت نفس کی پاس داری کے قائل تھے خودرای کا جذبہ اطاعت الہی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ آ پ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے تھے اور ہر کام میں اس کی اطاعت کرتے تھے اس لیے آپ میں خودداری کا وصف بھی اللہ تعالےٰ نے پید ا کر رکھا تھا ۔خود دار انسان کبھی کسی کے آگے سوال نہیں کرتا اور نہ ہی کبھی دنیا داروں کے ہاں کچھ لینے کے لیے جا تا ہے ۔آپ کی ضروریا ت اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے خود پوری فرمائیں ۔اس لیے آ پ کو کبھی کسی دنیا دار کے پاس جانے کی ضرورت محسو س نہ ہوئی۔
اس کے بارے میں حضرت سید علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں فرمایا ہے کہ درویش کو چاہئے کہ کسی دنیا دار کے بلانے پر نہ جائے ۔اس کی دعوت قبو ل نہ کرے اس سے کوئی چیز طلب نہ کرے ۔یہ اہل طریقت کی توہین ہے اس لیے کہ دنیا دار درویشوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔
خلاصہ یہ کہ انسان دنیاوی سازوسامان کی کثرت سے دنیا دار نہیں بن جاتا او ر اس کی قلت سے درویش نہیں ہوجاتا ۔جو شخص فقر کو غنا پر ترجیح دیتا ہے وہ دنیا دار نہیں ہے اگر چہ بادشاہ کیوں نہ ہواورجو فقر کی فضلیت کا منکر ہے وہ دنیا دار ہے ۔اگرچہ وہ (مفلسی کی دجہ سے )مجبور کیوں نہ ہو۔دعوت میں جائے تو کسی چیز کے کھانے یا نہ کھانے پر تکلف نہ کرے ۔وقت پر جو کچھ دستیاب ہو اس پر اکتفا کرے ۔اگر صاحب دعو ت (ہم جنس ،بے تکلف )ہو تو شادی شدہ شخص کھانا گھر پر لے جا سکتا ہے اگر وہ نا محرم ہوتو اس کے گھر جانا ہی صحیح نہیں ۔کسی بھی حا ل میں (بچا ہوا ) کھانا گھر لے جانا پسندیدہ بات نہیں ۔(کشف المحجوب
تواضع وانکساری
حضرت سید علی ہجویریؒ بڑ ے منکر المزاج تھے آپ کی طبیعت فطر ی طور پر متواضع تھی ۔ آپ کے پاس آنے میں کسی پر کوئی پابندی نہ تھی ۔آپ کے پاس جو بھی آتا اس کے ساتھ بڑا عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ۔اپنا تمام کام خود کرتے تھے ۔اپنے کپڑوں میں پیوند خود لگاتے ۔عاجزی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اس لیے اولیاءاللہ میں بھی یہ وصف بڑا نمایا ں ہوتا ہے بلکہ عاجزی ہی سے وہ پہچانے جاتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔
حضرت سید علی ہجویریؒ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں سے تھے اس لیے ان کے مزاج میں بھی عاجزی انتہا درجے کی تھی ۔آپ نے چلنے پھرنے کے آداب میں عاجز ی کے بارے میں یوں اظہار خیال فرمایا ہے :
درویش کو چاہئے کہ بیداری کے عالم میں مراقبہ کی شکل میں سر جھکا کر چلے اپنے سامنے کے سوا ادھر اُدھر نہ دیکھے ۔اگر کوئی شخص سامنے آجائے تو اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کپڑے نہ سمیٹے ۔کیونکہ تما م مسلمان اور ان کے کپڑے پاک ہیں یہ بات خود بینی اور رعونت پر دلالت کرتی ہے ۔البتہ سامنے آجانے والا شخص کافر ہے اور اس کے جسم پر نجاست ظاہر نظر آرہی ہے تو اپنے آپ کو اس سے بچانا جائزہے جماعت کے ساتھ چل رہا ہوتو آگے بڑھ کر چلنے کی کوشش نہ کرے ۔اس لیے کہ زیادتی کی خواہش تکبر کی نشانی ہے اسی طرح پیچھے پیچھے بھی نہ چلے اس میں تواضع کی زیادتی کا مظاہر ہ ہے اور تواضع کا احساس خود تکبر ہے ۔دن کے وقت چپل اور جوتے نجاست سے پاک رکھے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے رات کے وقت کپڑوں کو نجاست سے پاک رکھے۔اگر کسی جماعت یا ایک درویش کے ساتھ ہم سفر ہو تو راستہ میں کسی اور کے ساتھ بات کرنے کے لیے نہ ٹھہر ے ۔اپنے ساتھیوں کو انتظار نہ کرائے بہت زیادہ آہستہ بھی نہ چلے کہ یہ متکبر لوگوں کی چال ہے زمین پر پورا قدم رکھے ۔
الغرض طالب حق کی چال ایسی ہوکہ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ کہاں جا رہے ہو؟تو وہ یقین سے کہہ سکے ۔”اَنِّی ± ذَھَبَ اِلٰی رَبِّی ± “اگر اس کی چال ایسی نہیںہے تو یہ چلنا درویش کے لیے وبال ہے اس لیے کہ صحیح قدم ،دل کی کیفیت کی صحیح ہونے کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔جس کے خیا لا ت حق پر مرکوزہیں اس کے قدم خیا لات کے تابع ہوں گے ۔
ایثار 
آپ کے ایثار کے بارے میں سوانح حیات حضرت داتا گنج بخش میں لکھا ہے کہ آپ کوئی ایسی بات نہیں کرتے تھے جس کے وہ خود عامل نہیں ہوتے تھے ۔ایثار پر جو ان کے خیالات ہیں وہ آپ نے کھل کر کشف المحجوب میں بیان کردیے ہیں ۔وہ خود بھی ایثار کے پابند تھے ۔ابتدائے عمر میں انھوں نے اپنے نفس کو راحت وآرام سے ہٹا کر حصول علم کی طرف متوجہ کیا ۔پھر جنگلوں ،بیابانوں ،شہروں اور مختلف دریا و امصار میں تجربہ ،علم اور بزرگان دین کی زیارت کے لیے پھرتے رہے تا کہ ان تجربوں اور سیاحتوں اور تحصیل علم سے جو کچھ حاصل ہوا اس سے خلق خو دفیض پہنچایا جائے ۔شادی دو دفعہ ہوئی اور دونوں دفعہ والدین کے اصرار پر ہوئی ۔تیسری دفعہ بھی آپ شادی کرسکتے تھے لیکن منعقد ہونے سے چونکہ لوگوں کو فیض پہنچانے کا زیادہ موقع نہ مل سکتا تھا اس لیے اس طر ف توجہ ہی نہیں کی ۔اس کے علاوہ محض اشاعت اسلام اور کفر کی تاریکی کو دور کرنے اور نیکی و اخلاق حسنہ کا بیج بونے اور فسق و فجور کو نیست و نا بود کر نے کے لیے غزنی سے لاہور میںاس زمانے میں آئے جب راستے موجودہ زمانے کی نسبت سخت تکلیف دہ اور زیادہ پر خطر ااور طویل تھے ۔
لاہور آکر پہلے لڑکوں کو پڑھا نا شروع کیا مگر جب اس میں خود نمائی اور حکومت کی بُو پائی تو اس سلسلہ کو ترک کر دیا ۔اور عوام الناس کی خدمت کرنے لگے ۔جس سے آپ کا روحانی فیض پھیلنے لگا ۔اوریہ آپ ہی کے فیو ض و برکات کانتیجہ ہے کہ پنجاب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد دوسر ی اقوام کے بالمقابل کہیں زیادہ ہے ۔
کشف الاسرار میں آپ نے فرمایاہے کہ اے غافل !دیکھ یہ میں اور خودی چھوڑدے مردراہ بن اور دوسرے کا حق نہ مار ۔دولت دنیا کو عذاب سمجھ اور اسے غریبوں میں لوٹا دے اگر نہ لٹایا تو قبر میں کیڑے بن کر تجھے کھائے گی اور لٹادیا تو تیری دوست بن جائے گی ۔تیرے ہا تھ پاو ¿ں تیرے دشمن ہیں ۔جب تُو مرجائے گا تو تیرے پاو ¿ں ،آنکھیں ،ہاتھ گواہی دیں گے بُری جگہ گئے تھے بُری نگا ہ ڈالی تھی ۔ دوسرے کی چیز اٹھائی تھی ۔پس کسی کی چیز کی خواہش نہ کر ۔گناہوں پر دن رات توبہ کر استا د کے حق کا خیا ل رکھ ۔مخلوقِ خدا پر رحم کر۔لقمئہ حرام مت کھا ۔بے عزتی کی جگہ قدم نہ رکھ اور عزت کرنے والے کے پاس بیٹھ۔
فرض شناسی
 حضرت سید علی ہجویری ؒ بڑے فرض شناس تھے ۔ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتے تھے ۔جس کا جتنا حق ہوتا اس کی حق تلفی نہ ہونے دیتے ۔خاص کر آپ اپنے پاس بیٹھنے والے کی ضرورت کا خاص خیال کرتے ۔ اور اپنی صحبت میں آنے والوں کو بڑا روحانی فیض پہنچایا ۔
آداب ِصحبت میں آپ نے اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے صحبت میںدوسروں کو فائدہ پہنچانے کی شرط یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا صحیح درجہ دے ۔ بڑوں کی تعظیم کرے ،اپنے جلیسوں سے خوش دلی اور بچوں سے شفقت سے ساتھ پیش آئے ۔بڑوں کو والدین کا درجہ دے ،ہم عمروں کو بھائی سمجھے اور بچوں کے ساتھ اولاد کا برتاو ¿ کرے ۔ کینہ سے بیزاری اور حسدسے پرہیز کرے ،عداوت سے بچے نصیحت کرنے میںکسی سے کوتاہی نہ کرے ۔صحبت میں ایک دوسرے کی غیبت اور خیانت نامناسب ہے اسی طرح قول و فعل میں ایک دوسرے کی تر دید بھی صیحح نہیں ۔چونکہ صحبت کا آغاز اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے اس لیے بندے کے کسی قول اور فعل پر صحبت منقطع نہ کر ے۔
میں شیخ المشائخ ابوالقاسم گرگانی ؒ سے پوچھا کہ صحبت کی شرط کیا ہے ؟آپ نے فرمایا صحبت میں اپنے حصے (حق )کو طلب کرنے لگ جاتا ہے ۔حصہ طلب کرنے والے کے لیے صحبت سے تنہائی بہتر ہے ۔اپنے حصے سے دستبردار ہوگا تو اپنے ساتھی اور ہم نشین کے حصے کی حفاظت کرسکے گا ۔اور صحبت کا اہل ثابت ہوگا۔
ادب کی پاسداری 
آپ روزمرہ کی زندگی میں ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا بڑی توجہ سے اہتمام فرماتے اور اسی بات کی آپ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میںہر خاص وعام کو تاکید فرمائی ہے کہ ادب کا خیال ضرور کرو کیونکہ اس کے بغیر کچھ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔آپ نے فرمایا ہے کہ دنیا کا کوئی کام حُسنِ ادب کے بغیر پایہ ¿ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ادب لوگوں میں مروت کی پاسدار ی ،دین میں اتباع ِسُنت اور محبت میں احترام کی حفاظت کا نام ہے ۔یہ تینوں باتیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں اس لیے کہ جس میں مروّت نہ ہوگی وہ سنت کا پیروکار نہ ہوگا اور جس میںاتباعِ سنت نہ ہوگی اس میں احترام کی پاسداری نہ ہوگی ۔معاملات میں حفظ ادب دل میں مطلوب کی تعظیم سے حاصل ہوتاہے اللہ تعالےٰ اور اس کی آیا ت کی تعظیم تقوٰی سے حاصل ہے جو شخص بے ادبی سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں کی تعظیم پامال کرتاہے اسے طریقت کی منزل میں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔طالب ِراہ سکرو غلبہ کے ہر حال میں حفظِ آدب کا پاپندہوتا ہے اس لیے ادب ان کی عادت میں شامل ہوجاتا ہے اور عادت طبیعت کی مانند ہوجاتی ہے اور کسی بھی جاندار سے تاحین ِحیات طبعی خواص کا جداہونا ممکن نہیں ۔جب تک طالبان ِراہ کا وجود اپنی جگہ پر موجود رہے گا وہ تکلف سے خواہ بلاتکلف ہر حال میں ادب کی رعایت ملحوظ رکھتے ہیں ۔صحو کی حالت میں وہ کوشش سے آداب کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ عالمِ سکر میں اللہ تعالیٰ ان کو ادب پر قائم رکھتا ہے ۔ خیال رہے کہ وہ ولی اللہ کسی حال میں بھی ادب کا تارک نہیں ہوتا اس لیے کہ محبت ادب سے پیدا ہوتی ہے اور بہتر ادب کی نشانی ہے اللہ تعالیٰ جسے کرامت عطا فرماتا ہے نشانی کے طور پر اسے آداب ِدین کی پاسداری کی توفیق عطا کرتا ہے۔