Sunday, November 30, 2014

وصال و مزارِ اقدس

وصال و مزارِ اقدس 
فرما نِ خداوندی ہے کہ ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے کیونکہ دستور الہی نہیں بدلتا ۔ہر بنی اور ولی کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا پڑا ۔ایک مقولہ ہے کہ موت وہ پل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملا دیتا ہے ۔اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا موقع ملتا ہے جبکہ کفا ر کے لیے موت جہنم میں جانے کا سبب بنتی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی کچھ اس طرح ہے کہ” تحفةالمومن الموت “ یعنی موت مومن کے لیے تحفہ ہوتی ہے ۔

وصال 

آخر اللہ کے اس ولی پر بھی وہ وقت آگیا جبکہ روح اس جسدِ خاکی سے بے نیاز ہو کر بارگاہِ رب العزت میں نیاز مند ہوگئی ۔جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ بیمار ہوئے اور چند روز بیمار رہنے کے بعد آپ کا اپنے حجر ے میں وصال ہوگیا ۔
آپ کے وصال کے موقع پر شیخ احمد ہندی اور کچھ دوسرے عقیدت مند آپ کی خدمت میں حاضر تھے ۔آپ کے عقیدت مندوں نے آپ کی تجہیزو تکفین کی اور اس دھرتی کو آ پ کے آسودئہ خاک ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔فضلِ ربی سے انعام یافتہ اللہ کا ولی در پر ہو کر خلقِ خدا کو فیض رسانی پر مامور ہوگیا ۔
حضرت علی ہجویریؒ نے 65سال کی عمر پاکر 465ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ کیا ۔آپ کی تاریخ وصال ۹محرم الحرام بیان کی جاتی ہے واللہ اعلم باالصواب۔
محققین ومورخین میں سالِ وفات میں کچھ اختلاف ہے ۔مولانا جامی نفخات الانس میں 465ھ لکھتے ہیں ۔مصنف تذکر ہ الالیا ءحضرت شیخ فرید الدین عطا ر 464ھ حضرت دارا شکوہ سفینةالاولیا ءمی466ھ اور رائے بہادر گھنیا لال مصنف تاریخ لاہور (اردو) اورسید محمد لطیف مصنف تاریخ لاہور (انگریزی )اور مولوی سید احمد دہلوی فرنگ آصفیہ 465ھ لکھتے ہیں ۔میرے نزدیک آپ کا سالِ وفات 465ھ ہے ۔دوسر ی روایات سے یہ زیادہ قابل ترجیع ہے ۔

مزارِ اقدس 

لاہور میں آپ کا مزارِ اقدس داتا دربار سے مشہور ہے ۔مزارِ اقدس وسطی شہر کے مشہور بھاٹی دروازہ کے غرب رویہ ہے ۔بعض لوگ آستانہ عالیہ گنج بخش بھی کہتے ہیں ۔آپ کا یہ آستانہ مناسب وسعت پر مشتمل ہے ۔عمارت کے تقریباًمرکزمیں حضرت کے مزار کا گنبد ہے جس کے ارد گرد سنگِ مرمر کا غلا م گردش بنا ہوا ہے اور غرب جانب ایک وسیع اور کشادہ مسجد ہے ۔آستانہ عالیہ میں دیگر عمارات بھی بنی ہوئی ہیں ۔
وصال کے چند سال بعد تک آپ کا مزارِ اقدس بالکل سادہ حالت میں رہا کہا جاتاہے کہ آپ کی وفات کے پورے آٹھ سال بعد جب سلطان ابرہیم بن سلطان مسعود غزنوی ؒ پہلی بار لاہور آیا تو اس نے اس زمانے میں صرف کثیر سے آپ کا مزار اقدس پختہ کروایا ۔اس وقت کے رائج پیمانہ کے مطابق آپ کی قبر مبارک کا تعویذ 21۱۱ورعہ چوڑا اور ۷ورعہ لمبا ہے اوریہ ایک پتھر کا بنا ہوا ہے یہ بات قابل غور ہے کہ تعویذ مبارک قائم ہے ۔
مغل بادشاہ جلا ل الدین اکبر کے دور میں آستانہ عالیہ کی چار دیواری بنی ڈیوڑھی بھی تعمیر ہوئی اور خانقاہ کا فرش بھی لگا یا گیا ۔اس کے علا وہ خواجہ معین الدین ؒ کا حجرئہ اعتکاف کا گنبد بھی اسی دور میں تعمیر ہو ا۔مگر بادشاہ اکبر کے زمانے کی بنی ہوئی چار دیواری اور دیگر عمارت ختم ہوچکی ہے ۔بعدازاں جن حضرات 
کو توقیق ملتی رہی وہ آستانہ عالیہ کی عمارت میں اضافہ کرتے رہے ۔
بیان کیا جاتاہے کہ پہلے آپ کے مزار اقدس پر گنبد نہ تھا آخر1821ءمطابق 1278ھ میں حاجی احمد ساد ھو کشمیری نامی شخص نے مزار پُر انوار پر ایک خوبصورت گنبد تعمیر کروایا۔
ماضی میں جن حضرات نے مرقد مبارک کی تعمیر اور مرمت میں جو خدمت سر انجام دی اس کا تذ کر ہ دیکھ یوں ہے کہ آپ کے تعویذ کے اردگرد ایک پنجرہ چوبی ہشت پہلوتھا جس کو میاں عوض خان نے بنوایا تھا۔جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا فیل بان تھا 
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ سلسلہءچشتیہ کے جلیل القدر اولیاءسے ہیں حضرت خواجہ صاحب نے جب تبلیغ دین کی خاطر ہندوستان کا سفر اختیا ر کیا اور راستے میں جب لاہور پہنچے تو یہاں آپ حضرت علی ہجویری ؒ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوئے اور روحانیت میں آپ کی شانِ عالی سے متاثر ہوکر آپ کے روضئہ اقدس پر چلہ کشی کی اور آپ کے وسیلہ سے بارگاہِ رب العزت سے بے پناہ روحانی فیوض و برکا ت حاصل ہوئے ۔جہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے چلہ کشی کی وہ مقام حجرہ اعتکا ف خواجہ معین الدین چشتی کے نا م سے زیارت گاہ خاص وعام ہے ۔
حضرت خواجہ نے کتنا عرصہ چلہ کشی کی اس کے بارے میں سوانحی خا کہ گنج بخش میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی مدت ِ اعتکاف چھ ماہ یا اس کے قریب بتلائی جا تی ہے ۔حضرت خواجہ صاحب جب چلہ کشی کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے تو آپ نے باکمال عقیدت یہ شعر پڑھا 
گنج بخش فیض عالم مظہر نور ِ خدا 
نا قصاں را پیر کامل ،کاملاں را راہنما 
یہ شعر آج بھی ہر خاص وعام کی زبان پر رہتاہے ۔میاں محمد دین فوق نے آپ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ جب خواجہ آپ کی روح سے استداد کرکے رخصت ہونے لگے تو انھوں نے مندرجہ بالا شعر پڑھا ۔

No comments:

Post a Comment