حضرت سید علی ہجویر یؒ کی تصانیف
حضرت سید علی ہجویریؒ اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بزرگوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری علوم ِ شریعت کے ساتھ باطنی علوم سے بھی مالا مال کیا تھا آپ کو قرآن حدیث اور فقہ پر کامل عبور حاصل تھا ۔اس کے علاوہ آپ نے حصولِ معرفت کے لیے بے پنا ہ ریا ضت و عبادت کی تھی ۔زہدہ تقوی کی راہ اختیار کی تھی ۔جس سے راہِ معرفت کے بے پناہ اسرارو رموز آپ پر عیاں تھے ۔پھر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے حصولِ علم اور اللہ کے بندوں کی ملاقات کے لیے بہت سے علا قوں کی سیر وسیاحت کی اس سے آپ کو بہت سا مشاہدہ بھی ہوا ۔ان ساری خوبیوں کے جواہر کوآپ نے اپنی تصانیف کے روپ میں مخلوق خدا کی بہتری کے لیے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے ۔
آپ کی تصانیف میں شریعت اور علم و عرفان کا سمندر موجزن ہے اس لیے طالبانِ حق و صداقت کو حصول معر فت میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس صوفی کو کوئی ظاہر مرشد نہ مل سکے تو وہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے تو اسے راہِ معرفت کی راہنمائی مل جائے گی ۔اس لحاظ سے بے شمار راہِ سلوک کے مسافروں کو راہِ ہدایت میسر آئی ہے آپ نے جو کتب تحریر فرمائی ہیں ان کا اجمالاًتعارف پیش کیا جاتا ہے ۔
دیوان شعر
نوعمر ی میں ہی آپ کو تصنیف وتالیف کا شوق پیداہوگیا تھا ۔یہ دیوان صوفیانہ اور عارفانہ کلام پر مبنی تھااس کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ایک شخص نے پڑھنے کے لئے لیااور اس نے دیوان پر جہاں میرا نام تھا اپنا نام لکھ دیا اس طرح میری ساری محنت ضائع ہو گئی ۔کیونکہ میرے پاس ایک ہی نسخہ تھا جو میں نے اسے دے دیا ۔
منہاج الدین
یہ کتا ب علم تصوف سے تعلق رکھتی تھی اور غزنی کے قیا م کے دوران لکھی گئی تھی مگر افسوس کہ آپ کے ہم جلیسوں میں سے ایک شخص نے اسے اڑا لیا اور اس پر سے آپ کا نام کاٹ کر اپنا نام لکھ دیا ۔یہ شخص ”منہاج الدین “کے مضامین لوگوں کو سنتا اور کہتا کہ یہ میری تصنیف ہے ۔ناواقف لوگ اسے اس کی کاوش کی داد دیتے ۔مگر آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اہل حقیقت سے واقف تھے وہ اس کے اس دعوے پر دل ہی دل میں ہنستے تھے ۔حضرت علی ہجویریؒ کو اس کتا ب کی چوری کا بڑا قلق ہوا اور آپ نے بڑے دکھے ہوئے دل سے فرمایاکہ اللہ اس کانام روشن نہ کرے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوایہ کتاب طریقِ تصوف کے بیان میں تھی ۔اس میں اصحابِ صفہ کے مناقب تھے ۔اس کے علاوہ حضرت حسین بن منصور حلاج کے احوال کی ابتدا اور انتہاکو بیان کیا گیا تھا ۔
البیان لا ہل العیان
اس کتا ب کا ذکر آپ نے اپنی کتا ب کشف المحجوب میں اس طرح کیا ہے کہ ابتدائی زمانے میں میں نے ایک کتاب ”البیان لا ہل العیان “کے نام سے لکھی تھی اس کتا ب میں دنیا کی ناپائداری پر روشنی ڈالی گئی ۔یعنی اس کتا ب میں یہ بتایا گیا تھا کہ جو طالب اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف لگاتے ہیں وہ دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس بات کی دلیل میں معراج کا واقعہ پیش کیا گیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کون و مکا ن کی سیر کرائی گئی توآپ نے مشاہدئہ حق کے سواکسی طرف توجہ نہ دی مگر آپ کی یہ کتاب بھی نہ پید ہے ۔
اسرارالخرق والئمونیا ت
اس کتاب میں درویش کے ظاہر اور باطن کی وضاحت کی گئی ہے کہ ظاہر ی اور باطنی طور پر درویش میں کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے ۔اس بات پر بڑازور دیا کہ ظاہر کے ساتھ باطن کو پاکیزہ رکھنے سے معرفت جلد حاصل ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کتاب میں آپ نے یہ بات بتائی ہے کہ حصولِ روحانیت کے لیے محبت ،حفاظت نفس اورپاکیزگی از حد لازم ہے لہذا جو درویشی کی راہ میں قد م رکھے اسے چاہیئے کہ ان تینوں باتوں پر عمل پیرا ہوجائے ۔اس کتاب کا ذکر حضرت سید علی ہجویری ؒ نے اپنی کتاب میں یوں فرمایا ہے کہ یہ کتاب میں نے شیخ اور مرید کے بارے میں لکھی تھی لہذا مریدوں کو اپنی اصلا ح کے لیے اس کا ایک نسخہ پاس رکھنا چاہیئے ۔آپ فرماتے ہیں کہ میرے پاس اس کا ایک ہی نسخہ تھا جو مروہ میں رہ گیا ہے اس لیے لاہور میں آپ یہ کتاب نہ لاسکے اس لیے یہ بھی ناپید ہوگئی ۔
الرعایت بحقوق اللہ
آپ نے یہ کتا ب مسئلہ توحید کے بارے میں تصنیف کی ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کے تما م وہ حقوق بیان کیے ہیں جو بندوں پر عائد ہوتے ہیں ۔اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر بھی بڑا زور دیا گیا ہے اور دلائل توحید پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔جولوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں کو معبود مانتے ہیں ان کا قوی قرآنی دلائل اور براہین سے روکا گیا ہے ۔
یہ کتاب بھی نایا ب ہے ۔آپ نے کشف المحجوب میں اس کا ذکر یوں بیان کیا ہے کہ ”الرعایت بحقوق اللہ “کے نام سے ایک کتاب تصنیف کرچکا ہوں لہذا توحید کی وضاحت کے لیے ہر طالب کو چاہیئے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرے ۔
No comments:
Post a Comment