Sunday, November 30, 2014

حضرت علی ہجویر ی ؒ کی مناجات

حضرت علی ہجویر ی ؒ کی مناجات 

کشف الااسرار میں ایک مقام پر آپ نے اللہ کے حضور اپنے لیے التجا کرتے ہوئے یوں دعا کی ہے کہ :

یا اللہ میرے دل کو روشن چراغ بنا ،اپنی یاد کا شو ق بخش ،دل کو غیر سے خالی کر پیرو مرشد کو مجھ پر مہربان کر ۔پہلے میرے دل کو شکر بخش ،پھر مجھے دولت دے ۔پہلے دل کو کدوت سے پاک کر ،پھر اپنے راز سے نواز ،پہلے صبر دے اور پھر بیماری ،یا اللہ مجھے وہ دے جو بہتر ہے ۔پسندیدہ کی توفیق دے ۔

خداتعالیٰ حکیم و علیم و عزیز و شفیق ہے اس کا لطف عام ہے وہ کریم ہے رحیم ہے رحما ن ،غفار ،قہار ،جبار،وہاب،سلطان ،منان ہے ۔اللہ گنہگار وں کا فریاد رس ہے میری دعا ہے کہ میری زبان شہادت کے وقت نہ رُکے اور مجھے آٹھ جنتیںعطا کر اور میرامعشوق میرے پہلو میں ہو ۔مجھے عذاب میں گرفتا ر نہ کر ۔میں بیمار بے حال ہوں تو شافی و کا فی ہے میرے واسطے ۔

یا اللہ !علی کی عاجزی پر رحم کر اور بہ طفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بخش دے اس پر رحم کر ۔وہ عاجز بے کس ہے ۔اس کا کوئی یا رو مدد گا ر نہیںہے ۔وہ تیرے سوا کسی کو نہیںچاہتا اور تیرے نام کو جپتا ہے ۔عربت کے سوا اس کے ہاتھو ں میں کچھ نہیں ہے خدایا بے کس پر رحم کر ۔تورحیم ہے ، حلیم ہے ،شفیق ہے ۔میں گناہ کے سمندر میں ڈوبا ہوں تو بخشش کر ۔

اے انسان !طالب حق بن ۔تکلیف سے نہ ڈر ،فقیری مشکل ہے ،علم سیکھ ، عمل کر ،والدین کی خدمت کر تا کہ منزل پر پہنچے ۔انشاءاللہ !صدر نشین ہوگا ۔خداکا کرم تیرے شامل حال ہوگا ۔خداکی تعریف ہر دم کرو ۔وہ علیم و حکیم ہے ۔بار خدایا میرے گنا ہ ڈھانپ ۔مجھے خداری دے ۔میںحقیر پر تقصیر عاجز ہوں ،اے بصیر !مجھ پر رحم کر کمزور ہوں اور تو قادر توانا ۔

اے دوست !خدا جو عنایت کرتا ہے ا س پر راضی رہ ۔اگرویرانہ دے اس میں رہ ،شہر دے تووہاں رہ ،وطن یا بے وطن سب پر راضی ہو وہ گدڑی دے یا قاقم شکر بجا لا گھوڑا ہو یا گدھا سوار ہو ۔وہ اللہ کی نعمت ہے اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا احسان مند رہ 

گنج بخش کالقب 

حضرت داتا گنج بخش کی جلا لت شان اور مرتبہ کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت سید معین الدین چشتی ؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ جیسے جلیل القدر بزرگوں کے علاوہ حضرت میا ں میر قادری اور محدث کبیر حضرت شاہ محمد غوث قادری لاہوریؒ نے آپ کے مزار مبارک پر معتکف رہ کر فیض پایا اور منازل سلوک و معرفت طے کیے ۔درار شکوہ شہزادے نے اپنی مشہو رتصنیف سفینة الاولیا ءمیں یہ تصریح کی ہے کہ جو شخص چالیس دن تک بلا نا غہ مزار ِ داتا پر حاضری دے ، اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت پوری فرمادیتا ہے ۔

وصال کے بعد اولیائے کرام کے فیوض و برکات کا جاری رہنا کتاب وسنت سے واضح اور ثابت ہے ۔حضرت داتا گنج بخش ؒ کی اسی فیض رسانی خلق سے متا ثر ہو کر علامہ ڈاکٹر محمد اقبا ل مرحوم بارگاہِ گنج بخش میں عرض کرتے ہیں 

سید ہجویر مخدوم ِ اُمم 

مرقد ِ اُو پیر سنجررا حرم 

حضرت داتا گنج بخش ؒ کی اس فیض رسانی نے عوام و خواص کے دل موہ لیے لوگوں نے جو چاہا سو پایا ۔اس فیض سے گرویدہ ہو کر لوگوں نے آپ کو گنج بخش کہنا شروع کر دیا مزید برآں یہ بھی وجہ ہے کہ آپ کی ذات سے ظاہری و باطنی فیض حاصل ہوا ۔آپ سے علم و دانش کے چشمے پھوٹے ۔آپ نے لوگوں کو ان کے مقصد حیات سے روشن کروایا آپ نے زندگی کے راز کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیے ۔لوگوں کو روحانی زندگی سے متعارف کروایا ۔لاکھوں انسانوں نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔آپ کے ۴۳ سالہ قیام لاہور کے دوران تبلیغ اور فروغ اسلام کا فریضہ آپ کے ہاتھوں بامِ عروج پر پہنچ گیا ۔یہی وجہ تھی کہ خاص و عام نے آپ کو گنج بخش کہنا شروع کردیا ۔

گنج بخش کا لفظ جو آپ کے نام سے پہلے لکھا پڑھااور بولا جاتا ہے اس کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے آپ کے مزار پر چلہ کشی کے بعد روانگی کے لیے آپ سے اجازت طلب کی تو ایک دم آپ کی زبان پر یہ شعر آگیا اورا سی وقت سے گنج بخش کا لفظ مقبولِ عام ہوگیا 

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا 

ناقصاںرا پیرکا مل ، کاملا ں را راہ نما 

سوانح حیا ت حضرت داتا گنج بخش ؒ از محمد دین فوق میں لکھا ہے کہ جب حضرت کی اپنی تحریر شدہ کتا ب کشف الاسرار دیکھی جاتی ہے تو مندرجہ بالا ذہن سے فوارًمنتقل ہوجاتا ہے کہ کیونکہ وہ کتا ب بتاتی ہے کہ حضرت کی زندگی میں ہی آپ کا نام حضرت داتا گنج بخش مشہور ہوگیا تھا جیسا کہ کشف الااسرار میں لکھا ہے ۔

”اے علی !لوگ تجھے گنج بخش داتا کے لقب سے پکارتے ہیں (حالانکہ ) تیرے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس قسم کے خیا لات کو اپنے دل میں جگہ مت دے یہ سخت تکبر کی بات ہے ۔گنج بخش ہو یا رنج بخش،یہ سب صفات ذات حق کے لیے مخصوص ہیں ۔“

حضرت سیدعلی ہجویریؒ کی تحریر کے اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گنج بخش داتا کا لقب حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے چلہ کش ہونے سے بہت پہلے خود حضرت علی ہجویریؒ کی زندگی میں مشہور ہو چکا تھا مگر خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے شعر کہنے سے یہ شہرت پہلے سے زیادہ دو بالا ہوگئی ۔دوسر ے یہ کہ حضرت علی ہجویری ؒ نے خود اس لقب کو پسند نہیں کیا اور یہ مشورہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ بہتر ہے ۔

”سید ہجویر میں لکھا ہے کہ گنج بخش کا لقب آپ کو سجتا ہے آپ نے پوری زندگی معرفت کا خزانہ ہی تقسیم کیا ہے آپ نے کشف المحجوب جیسا علمی خزانہ اپنے بعد چھوڑا ہے جسے بجا طور پر تصوف کادستور العمل کہا جاسکتا ہے اہل باطن اس سے سب کچھ پالیتے ہیں ۔الغرض علم و عرفان کا خزانہ لٹانے کے معنوں میں گنج بخش کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

ازدواجی زندگی 

شادی کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔اس لیے ہر باشرع بزرگ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتبا ع میں نکاح کیا ۔آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے سنت مصطفی کے مطابق شادی کی مگر اللہ تعالیٰ نے زیادہ عرصہ اس میں مشغول نہ رہنے دیا ۔کشف المحجوب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ہجویر ی نے دو نکاح کیے ۔پہلی شادی ابتداءجوانی میں ہوئی مگر وہ عفیفہ جلد ہی وفات پا گئیں ۔پہلی بیوی کے انتقا ل کے بعد تجرد اختیا ر کر لیا ۔یہ سلسلہ تقریبا ً گیا رہ سا ل قائم رہا ۔حتٰی کے دوسرے نکاح کا موقعہ خود بخود فراہم ہو گیا جس کے بارے میں آپ اس طرح فرماتے ہیں ۔:

”میں کہ علی بن عثما ن جلا بی ہوں ۔خداوند کریم نے مجھے گیارہ برس تک نکاح کی آفت سے بچایا ہواتھا مگر تقدیر نے مجھے آخر نکاح میں گرفتار کر دیا ۔اور ارادہ خواہش کے بغیر اس فتنے میں پھنس گیا ۔واقعہ یہ ہو اکہ ایک پر ی صفت کا بن دیکھے عاشق و شیفةہو گیا ۔ایک سال اسی پریشانی اور اضطرب میں مبتلارہا ۔چنانچہ نزدیک تھا کہ میر ا دین و ایمان تباہ ہوجائے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کمال لطف و کرم سے عصمت و عفت کو میرے قلب کے استقبال کے لیے بھیجا اور اپنی رحمت اور اعانت سے مجھے اس عظیم فتنے سے نجات دی ۔“

اس عبارت سے یہ بات اخذ نہیںہوتی کہ آپ کی پہلی شادی کب ہوئی اور کہاں ہوئی مگر دوسری شادی کا ذکر کرتے ہوئے مندرجہ بالا عبارت میں جو یہ بات لکھی ہے کہ گیارہ سال سے نکاح کی آفت سے بچائے ہوا تھا ،مقدر نے آخر اس میں پھنسادیا اور میں عیال کی صحبت میںدل وجان سے بن دیکھے ہی گرفتار ہوگیا ۔“یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ بچپن ہی سے مناکحت کی زنجیروں میںجکڑ دیے گئے تھے اور پہلی بیوی کے انتقال کے بعد گیا رہ سا ل تک دوسرا نکاح نہیں کیا تھا ۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی پہلی شادی بھی والدین کی موجودگی میں ہوئی تھی اور دوسر ی شادی بھی ان کی موجودگی بلکہ یقیناانھی کے اصرار سے ہوئی ہو گی ۔کیونکہ حضرت نے کشف المحجوب اور کشف الاسرار میں عورتوں سے خدا کی پناہ طلب کی ہے ۔اور ان کی ذات کو فتنہ وفساد کی مخزن قراردیا ہے بلکہ آپ نے بھی اپنی دونوں متذکرہ بالا کتا بوں میں حالتِ تجرید ہی کو پسند کیا ہے ۔نکاح ثانی کے بعد آپ کے یہ الفاظ کہ خدا تعالیٰ نے اس آفت سے بچایا ہوا ہے ۔اب مقدر نے اس میں پھر پھنسا دیا ہے ۔آپ کی دلی ناپسندید گی کا روشن عکس ہے مگر والدین کے ادب و احترام کی وجہ سے اعلانیہ انکا ر نہیں کرسکتے تھے ۔

آپ کی دوسر ی بیوی صرف ایک سال زندہ رہیںاور آپ جلد ہی اس بار سے سبکدوش ہوگئے ۔ان دونوں میں سے کسی نہ کسی بیوی کے بطن سے اولاد بھی پیدا ہوئی کیونکہ آپ کی کنیت ”ابو الحسن “سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے یہاں فرزند تولد ہوا جس کا نام آپ نے حسن رکھا تھا مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ بیٹا صغر سنی میں فوت ہوگیا تھا۔

حنفی مسلک 

حضرت سیدعلی ہجویری ؒ حنفی مسلک کے پیرو کا ر تھے ۔اسلامی شریعت کے ترجمان مختلف مسالک فقہ ہیں ۔فقہ ان مسالک میں فقہ حنفی کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔بیشتر اولیاءاور صوفیاءکاتعلق حنفی مشرب ہی سے ہے ۔کیونکہ فقہ کا یہ مسلک بڑا مقبول ہے ۔کشف المحجوب کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سید علی ہجویر یؒ مسلک اہل سنت وجماعت سے تعلق رکھتے تھے ۔اس مسلک کے تر جمان حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ہیں اور آپ کو ان کی ذات گرامی سے بڑی عقیدت تھی ۔اسی وجہ سے آپ نے اپنی کتا ب میں متعدد مقامات پر ان کا ذکر بڑے احترا م سے کیا ہے آپ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ اماموں کے امام اہل سنت و الجماعت کے مقتدا ،فقہار کے سرتاج ،علماءکا طرئہ امتیازحضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخراز ؒ ہیں ۔مجاہدات اور عبادات میں آپ بڑے صاحب ِ استقامت تھے اور طریقت کے اصولوں میں بڑی بلند شان کے مالک تھے ۔

حضرت امام اعظم کے بارے میں خواب 

پھر آپ نے اپنے ایک خوا ب کا ذکر کیا ہے جس سے حضرت امام ابوحنیفہؒ کا بلند مقام ظاہر ہوتا ہے آپ نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ شام میں مو ¿ذنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے مزار پر سو رہا تھا خواب میںدیکھا کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بزرگ کو بچوں کی طرح شفقت سے اپنی بغل میں لیے باب بنی شیبہ سے اندر تشریف لارہے ہیں ۔میں دوڑا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاﺅں چومے ۔حیران تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں ۔اور یہ کیا صورت ہے ؟آپ نور باطن سے میرے دل کی کیفیت پر مطلع ہوگئے ۔اور فرمایا تیرا امام ہے اور تیرے ہی علاقے کا رہنے والا ہے ۔مجھے اپنے علاقے کے اعزاز پر بڑی خوشی ہوئی اور خواب سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی طبیعت کے اوصاف سے فانی اور احکام شرع کے اعتبار سے باقی اور قائم ہوتے ہیں ۔اسی لیے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھا کر لائے اگر وہ خود چل کر آتے تو باقی الصفة ہوتے اور باقی الصفة کبھی منزل مقصود کوپہنچ جاتے ہیں اور کبھی نہیں مگرآپ کو لانے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔لہٰذ ا وہ خود اپنی صفات سے فانی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ِ بقا کے ساتھ قائم تھے ۔لہذ ا جس طرح سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطا سے بالا تر ہیں اسی طرح ان سے بھی خطا سر زد نہیں ہوسکتی جو آپ کی صفات کے ساتھ قائم ہوں ۔یہ ایک باریک نکتہ ہے ۔
آپ کے اس خواب سے حضرت امام اعظم ؒ کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کی شان اتنی بلند ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کو اس کے حقیقی معنوں میں فروغ دیا اور تبلیغ دین کا صحیح فریضہ ادا کیا ۔اس لیے آپ حنفی مسلک کو دوسرے مسالک پر ترجیح دیتے ہوئے اس کے پیروکا ر تھے ۔

حضرت سید علی ہجویر یؒ کی تصانیف

حضرت سید علی ہجویر یؒ کی تصانیف

حضرت سید علی ہجویریؒ اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بزرگوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری علوم ِ شریعت کے ساتھ باطنی علوم سے بھی مالا مال کیا تھا آپ کو قرآن حدیث اور فقہ پر کامل عبور حاصل تھا ۔اس کے علاوہ آپ نے حصولِ معرفت کے لیے بے پنا ہ ریا ضت و عبادت کی تھی ۔زہدہ تقوی کی راہ اختیار کی تھی ۔جس سے راہِ معرفت کے بے پناہ اسرارو رموز آپ پر عیاں تھے ۔پھر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے حصولِ علم اور اللہ کے بندوں کی ملاقات کے لیے بہت سے علا قوں کی سیر وسیاحت کی اس سے آپ کو بہت سا مشاہدہ بھی ہوا ۔ان ساری خوبیوں کے جواہر کوآپ نے اپنی تصانیف کے روپ میں مخلوق خدا کی بہتری کے لیے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے ۔
آپ کی تصانیف میں شریعت اور علم و عرفان کا سمندر موجزن ہے اس لیے طالبانِ حق و صداقت کو حصول معر فت میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس صوفی کو کوئی ظاہر مرشد نہ مل سکے تو وہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے تو اسے راہِ معرفت کی راہنمائی مل جائے گی ۔اس لحاظ سے بے شمار راہِ سلوک کے مسافروں کو راہِ ہدایت میسر آئی ہے آپ نے جو کتب تحریر فرمائی ہیں ان کا اجمالاًتعارف پیش کیا جاتا ہے ۔

دیوان شعر 

نوعمر ی میں ہی آپ کو تصنیف وتالیف کا شوق پیداہوگیا تھا ۔یہ دیوان صوفیانہ اور عارفانہ کلام پر مبنی تھااس کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ایک شخص نے پڑھنے کے لئے لیااور اس نے دیوان پر جہاں میرا نام تھا اپنا نام لکھ دیا اس طرح میری ساری محنت ضائع ہو گئی ۔کیونکہ میرے پاس ایک ہی نسخہ تھا جو میں نے اسے دے دیا ۔

منہاج الدین 

یہ کتا ب علم تصوف سے تعلق رکھتی تھی اور غزنی کے قیا م کے دوران لکھی گئی تھی مگر افسوس کہ آپ کے ہم جلیسوں میں سے ایک شخص نے اسے اڑا لیا اور اس پر سے آپ کا نام کاٹ کر اپنا نام لکھ دیا ۔یہ شخص ”منہاج الدین “کے مضامین لوگوں کو سنتا اور کہتا کہ یہ میری تصنیف ہے ۔ناواقف لوگ اسے اس کی کاوش کی داد دیتے ۔مگر آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اہل حقیقت سے واقف تھے وہ اس کے اس دعوے پر دل ہی دل میں ہنستے تھے ۔حضرت علی ہجویریؒ کو اس کتا ب کی چوری کا بڑا قلق ہوا اور آپ نے بڑے دکھے ہوئے دل سے فرمایاکہ اللہ اس کانام روشن نہ کرے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوایہ کتاب طریقِ تصوف کے بیان میں تھی ۔اس میں اصحابِ صفہ کے مناقب تھے ۔اس کے علاوہ حضرت حسین بن منصور حلاج کے احوال کی ابتدا اور انتہاکو بیان کیا گیا تھا ۔

البیان لا ہل العیان

اس کتا ب کا ذکر آپ نے اپنی کتا ب کشف المحجوب میں اس طرح کیا ہے کہ ابتدائی زمانے میں میں نے ایک کتاب ”البیان لا ہل العیان “کے نام سے لکھی تھی اس کتا ب میں دنیا کی ناپائداری پر روشنی ڈالی گئی ۔یعنی اس کتا ب میں یہ بتایا گیا تھا کہ جو طالب اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف لگاتے ہیں وہ دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس بات کی دلیل میں معراج کا واقعہ پیش کیا گیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کون و مکا ن کی سیر کرائی گئی توآپ نے مشاہدئہ حق کے سواکسی طرف توجہ نہ دی مگر آپ کی یہ کتاب بھی نہ پید ہے ۔

اسرارالخرق والئمونیا ت 

اس کتاب میں درویش کے ظاہر اور باطن کی وضاحت کی گئی ہے کہ ظاہر ی اور باطنی طور پر درویش میں کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے ۔اس بات پر بڑازور دیا کہ ظاہر کے ساتھ باطن کو پاکیزہ رکھنے سے معرفت جلد حاصل ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کتاب میں آپ نے یہ بات بتائی ہے کہ حصولِ روحانیت کے لیے محبت ،حفاظت نفس اورپاکیزگی از حد لازم ہے لہذا جو درویشی کی راہ میں قد م رکھے اسے چاہیئے کہ ان تینوں باتوں پر عمل پیرا ہوجائے ۔اس کتاب کا ذکر حضرت سید علی ہجویری ؒ نے اپنی کتاب میں یوں فرمایا ہے کہ یہ کتاب میں نے شیخ اور مرید کے بارے میں لکھی تھی لہذا مریدوں کو اپنی اصلا ح کے لیے اس کا ایک نسخہ پاس رکھنا چاہیئے ۔آپ فرماتے ہیں کہ میرے پاس اس کا ایک ہی نسخہ تھا جو مروہ میں رہ گیا ہے اس لیے لاہور میں آپ یہ کتاب نہ لاسکے اس لیے یہ بھی ناپید ہوگئی ۔

الرعایت بحقوق اللہ 

آپ نے یہ کتا ب مسئلہ توحید کے بارے میں تصنیف کی ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کے تما م وہ حقوق بیان کیے ہیں جو بندوں پر عائد ہوتے ہیں ۔اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر بھی بڑا زور دیا گیا ہے اور دلائل توحید پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔جولوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں کو معبود مانتے ہیں ان کا قوی قرآنی دلائل اور براہین سے روکا گیا ہے ۔
یہ کتاب بھی نایا ب ہے ۔آپ نے کشف المحجوب میں اس کا ذکر یوں بیان کیا ہے کہ ”الرعایت بحقوق اللہ “کے نام سے ایک کتاب تصنیف کرچکا ہوں لہذا توحید کی وضاحت کے لیے ہر طالب کو چاہیئے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرے ۔

کتا ب فنا وبقا

کتا ب فنا وبقا 

یہ کتاب مسئلہ فنا و بقا کے بارے میں ہے اس کے بارے میں آپ نے فرمایاہے کہ ”کتاب فنا و بقا “میں نے اس دور میں لکھی ہے جبکہ میرا علم نہ پختہ تھا اور عقل پر پچپن کے اثرات تھے بہر کیف یہ کتاب بھی نا پید ہے ۔

نحو القلوب 

جمع و تفرقہ تصوف کے موضوعات میں سے ایک بڑا اہم موضوع ہے ۔جمع وہ ہے جو اپنے اوصاف کے ساتھ جمع ہو ،اور تفرقہ وہ ہے جو اپنے افعال سے جدا ہو ں اس کی وضاحت میں آپ نے کتاب ”نحو القلوب “لکھی تھی جس میں کتاب و سنت کی روح سے اس مسئلہ کی بڑی وضاحت کی ہے تاکہ اہل تصوف کو یہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو ۔کشف المحجوب کے باب فرقہ سیاریہ میں آپ نے فرمایا ہے کہ جمع کے متعلق میں کتاب نحوالقلوب میں مفصل بحث سپردقلم کر چکا ہوں ۔

کشف الاسرار 

یہ کتا ب فارسی زبان میں ہے اور کشف المحجوب کی تالیف کے بعد لاہور میں لکھی گئی ۔یہ ایک مختصر رسالہ ہے جس میںآپ نے فقرائ،صفاتِ حق تعالیٰ ،ذکرو اشغال ،نفس کشی ، عبادت،مما نعت سماع اور صبرو شکر پر اختصار سے روشنی ڈالی ہے ۔
کتاب کے آغاز میں آپ نے لکھا ہے کہ میں علی بن عثمان جلا بی ؒ ہوںمیرے پاس طالبانِ حق کے لیے بہت سی مفید باتیں ہیں ۔جو شخص ان پر عمل کرے گا وہ سر خیل مشائخ بن جائے گا ۔میں نے اپنی کتا ب”کشف المحجوب “مختصر سی مدت میں لکھ دی تھی ۔کچھ اور باتیں جو اب ذہن میں آتی ہیں لکھتا ہوں اوراس کا نام کشف الاسرار تجویز کرتاہوں ۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ”کشف الاسرار “دراصل ”کشف المحجوب “کا ضمیمہ ہے ۔آپ نے اس کتاب کے متعلق یہ بھی دعوی فرمایا ہے کہ میری یہ تالیف پڑھنے والوں کو دوسری بہت سی کتابوں سے بے نیاز کردے گی ۔اس میں شک نہیں ہے کہ آپ کی یہ کتاب تعلق باللہ پیداکرنے میں بیحد محدومعاون ثابت ہوسکتی ہے ۔

شرح کلا م 

یہ کتاب حسین بن منصور حلاج کے کلا م کی شرح پر لکھی گئی تھی جس میں منصور کے کلا م کے باطنی نقاط پر روشنی ڈالی گئی لیکن یہ بھی نا پید ہے ۔

کشف المحجوب 

یہ تصوف کے موضوع پر آپ کی ایک معرکة الآراکتاب ہے جو ہر دور میں مقبولِ عام ہے ۔آپ کی تمام تصانیف میں سے یہی ایک تصنیف ایسی ہے جو ضخیم ہے اور عام ملتی ہے ۔کشف المحجوب میں کوئی پہلو ایسا نہیں جو نظر انداز کیا گیا ہو ۔یہ کتا ب راہِ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے چراغ ہدایت ہے ۔اصل کتاب فارسی میں ہے مگراب اس کے اُردوااور دنیا کی دوسری زبانوں میںتراجم چھپ چکے ہیں ۔اس کتاب کو آپ نے اپنے وطن میںلکھنا شروع کیا لیکن جب آپ لاہور میں آئے تو اسے ساتھ لے آئے اور لاہورمیں اس کی تکمیل کی اور زیادہ حصہ لاہور میں تصنیف شدہ ہے ۔کیونکہ اسی کتاب میں لکھاہے کہ یہ کتاب حضرت ابو سعید ہجویریؒ ،جو آپ کے ساتھ آئے تھے ،کے کہنے پر لکھی گئی تھی ۔یہ کتاب تصوف کے موضوع پر ایک نادر خزانے کی حیثیت رکھتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو کوئی مسئلہ نہیں جس کے بارے میں اس کتاب میں وضاحت نہ کی گئی ہو ۔

وصال و مزارِ اقدس

وصال و مزارِ اقدس 
فرما نِ خداوندی ہے کہ ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے کیونکہ دستور الہی نہیں بدلتا ۔ہر بنی اور ولی کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا پڑا ۔ایک مقولہ ہے کہ موت وہ پل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملا دیتا ہے ۔اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا موقع ملتا ہے جبکہ کفا ر کے لیے موت جہنم میں جانے کا سبب بنتی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی کچھ اس طرح ہے کہ” تحفةالمومن الموت “ یعنی موت مومن کے لیے تحفہ ہوتی ہے ۔

وصال 

آخر اللہ کے اس ولی پر بھی وہ وقت آگیا جبکہ روح اس جسدِ خاکی سے بے نیاز ہو کر بارگاہِ رب العزت میں نیاز مند ہوگئی ۔جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ بیمار ہوئے اور چند روز بیمار رہنے کے بعد آپ کا اپنے حجر ے میں وصال ہوگیا ۔
آپ کے وصال کے موقع پر شیخ احمد ہندی اور کچھ دوسرے عقیدت مند آپ کی خدمت میں حاضر تھے ۔آپ کے عقیدت مندوں نے آپ کی تجہیزو تکفین کی اور اس دھرتی کو آ پ کے آسودئہ خاک ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔فضلِ ربی سے انعام یافتہ اللہ کا ولی در پر ہو کر خلقِ خدا کو فیض رسانی پر مامور ہوگیا ۔
حضرت علی ہجویریؒ نے 65سال کی عمر پاکر 465ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ کیا ۔آپ کی تاریخ وصال ۹محرم الحرام بیان کی جاتی ہے واللہ اعلم باالصواب۔
محققین ومورخین میں سالِ وفات میں کچھ اختلاف ہے ۔مولانا جامی نفخات الانس میں 465ھ لکھتے ہیں ۔مصنف تذکر ہ الالیا ءحضرت شیخ فرید الدین عطا ر 464ھ حضرت دارا شکوہ سفینةالاولیا ءمی466ھ اور رائے بہادر گھنیا لال مصنف تاریخ لاہور (اردو) اورسید محمد لطیف مصنف تاریخ لاہور (انگریزی )اور مولوی سید احمد دہلوی فرنگ آصفیہ 465ھ لکھتے ہیں ۔میرے نزدیک آپ کا سالِ وفات 465ھ ہے ۔دوسر ی روایات سے یہ زیادہ قابل ترجیع ہے ۔

مزارِ اقدس 

لاہور میں آپ کا مزارِ اقدس داتا دربار سے مشہور ہے ۔مزارِ اقدس وسطی شہر کے مشہور بھاٹی دروازہ کے غرب رویہ ہے ۔بعض لوگ آستانہ عالیہ گنج بخش بھی کہتے ہیں ۔آپ کا یہ آستانہ مناسب وسعت پر مشتمل ہے ۔عمارت کے تقریباًمرکزمیں حضرت کے مزار کا گنبد ہے جس کے ارد گرد سنگِ مرمر کا غلا م گردش بنا ہوا ہے اور غرب جانب ایک وسیع اور کشادہ مسجد ہے ۔آستانہ عالیہ میں دیگر عمارات بھی بنی ہوئی ہیں ۔
وصال کے چند سال بعد تک آپ کا مزارِ اقدس بالکل سادہ حالت میں رہا کہا جاتاہے کہ آپ کی وفات کے پورے آٹھ سال بعد جب سلطان ابرہیم بن سلطان مسعود غزنوی ؒ پہلی بار لاہور آیا تو اس نے اس زمانے میں صرف کثیر سے آپ کا مزار اقدس پختہ کروایا ۔اس وقت کے رائج پیمانہ کے مطابق آپ کی قبر مبارک کا تعویذ 21۱۱ورعہ چوڑا اور ۷ورعہ لمبا ہے اوریہ ایک پتھر کا بنا ہوا ہے یہ بات قابل غور ہے کہ تعویذ مبارک قائم ہے ۔
مغل بادشاہ جلا ل الدین اکبر کے دور میں آستانہ عالیہ کی چار دیواری بنی ڈیوڑھی بھی تعمیر ہوئی اور خانقاہ کا فرش بھی لگا یا گیا ۔اس کے علا وہ خواجہ معین الدین ؒ کا حجرئہ اعتکاف کا گنبد بھی اسی دور میں تعمیر ہو ا۔مگر بادشاہ اکبر کے زمانے کی بنی ہوئی چار دیواری اور دیگر عمارت ختم ہوچکی ہے ۔بعدازاں جن حضرات 
کو توقیق ملتی رہی وہ آستانہ عالیہ کی عمارت میں اضافہ کرتے رہے ۔
بیان کیا جاتاہے کہ پہلے آپ کے مزار اقدس پر گنبد نہ تھا آخر1821ءمطابق 1278ھ میں حاجی احمد ساد ھو کشمیری نامی شخص نے مزار پُر انوار پر ایک خوبصورت گنبد تعمیر کروایا۔
ماضی میں جن حضرات نے مرقد مبارک کی تعمیر اور مرمت میں جو خدمت سر انجام دی اس کا تذ کر ہ دیکھ یوں ہے کہ آپ کے تعویذ کے اردگرد ایک پنجرہ چوبی ہشت پہلوتھا جس کو میاں عوض خان نے بنوایا تھا۔جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا فیل بان تھا 
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ سلسلہءچشتیہ کے جلیل القدر اولیاءسے ہیں حضرت خواجہ صاحب نے جب تبلیغ دین کی خاطر ہندوستان کا سفر اختیا ر کیا اور راستے میں جب لاہور پہنچے تو یہاں آپ حضرت علی ہجویری ؒ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوئے اور روحانیت میں آپ کی شانِ عالی سے متاثر ہوکر آپ کے روضئہ اقدس پر چلہ کشی کی اور آپ کے وسیلہ سے بارگاہِ رب العزت سے بے پناہ روحانی فیوض و برکا ت حاصل ہوئے ۔جہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے چلہ کشی کی وہ مقام حجرہ اعتکا ف خواجہ معین الدین چشتی کے نا م سے زیارت گاہ خاص وعام ہے ۔
حضرت خواجہ نے کتنا عرصہ چلہ کشی کی اس کے بارے میں سوانحی خا کہ گنج بخش میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی مدت ِ اعتکاف چھ ماہ یا اس کے قریب بتلائی جا تی ہے ۔حضرت خواجہ صاحب جب چلہ کشی کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے تو آپ نے باکمال عقیدت یہ شعر پڑھا 
گنج بخش فیض عالم مظہر نور ِ خدا 
نا قصاں را پیر کامل ،کاملاں را راہنما 
یہ شعر آج بھی ہر خاص وعام کی زبان پر رہتاہے ۔میاں محمد دین فوق نے آپ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ جب خواجہ آپ کی روح سے استداد کرکے رخصت ہونے لگے تو انھوں نے مندرجہ بالا شعر پڑھا ۔

Monday, November 3, 2014

the history in Urdu of Hazrat Ali Bin Usman AlJulabi AlHujwiri (R-A) written by Allam Alam Faqri


Hazrat Ali Bin Usman AlJulabi AlHujwiri (R-A)
the history  in Urdu of Hazrat Ali Bin Usman AlJulabi AlHujwiri (R-A) written by Allam Alam Faqri