حضرت علی ہجویر ی ؒ کی مناجات
کشف الااسرار میں ایک مقام پر آپ نے اللہ کے حضور اپنے لیے التجا کرتے ہوئے یوں دعا کی ہے کہ :
یا اللہ میرے دل کو روشن چراغ بنا ،اپنی یاد کا شو ق بخش ،دل کو غیر سے خالی کر پیرو مرشد کو مجھ پر مہربان کر ۔پہلے میرے دل کو شکر بخش ،پھر مجھے دولت دے ۔پہلے دل کو کدوت سے پاک کر ،پھر اپنے راز سے نواز ،پہلے صبر دے اور پھر بیماری ،یا اللہ مجھے وہ دے جو بہتر ہے ۔پسندیدہ کی توفیق دے ۔
خداتعالیٰ حکیم و علیم و عزیز و شفیق ہے اس کا لطف عام ہے وہ کریم ہے رحیم ہے رحما ن ،غفار ،قہار ،جبار،وہاب،سلطان ،منان ہے ۔اللہ گنہگار وں کا فریاد رس ہے میری دعا ہے کہ میری زبان شہادت کے وقت نہ رُکے اور مجھے آٹھ جنتیںعطا کر اور میرامعشوق میرے پہلو میں ہو ۔مجھے عذاب میں گرفتا ر نہ کر ۔میں بیمار بے حال ہوں تو شافی و کا فی ہے میرے واسطے ۔
یا اللہ !علی کی عاجزی پر رحم کر اور بہ طفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بخش دے اس پر رحم کر ۔وہ عاجز بے کس ہے ۔اس کا کوئی یا رو مدد گا ر نہیںہے ۔وہ تیرے سوا کسی کو نہیںچاہتا اور تیرے نام کو جپتا ہے ۔عربت کے سوا اس کے ہاتھو ں میں کچھ نہیں ہے خدایا بے کس پر رحم کر ۔تورحیم ہے ، حلیم ہے ،شفیق ہے ۔میں گناہ کے سمندر میں ڈوبا ہوں تو بخشش کر ۔
اے انسان !طالب حق بن ۔تکلیف سے نہ ڈر ،فقیری مشکل ہے ،علم سیکھ ، عمل کر ،والدین کی خدمت کر تا کہ منزل پر پہنچے ۔انشاءاللہ !صدر نشین ہوگا ۔خداکا کرم تیرے شامل حال ہوگا ۔خداکی تعریف ہر دم کرو ۔وہ علیم و حکیم ہے ۔بار خدایا میرے گنا ہ ڈھانپ ۔مجھے خداری دے ۔میںحقیر پر تقصیر عاجز ہوں ،اے بصیر !مجھ پر رحم کر کمزور ہوں اور تو قادر توانا ۔
اے دوست !خدا جو عنایت کرتا ہے ا س پر راضی رہ ۔اگرویرانہ دے اس میں رہ ،شہر دے تووہاں رہ ،وطن یا بے وطن سب پر راضی ہو وہ گدڑی دے یا قاقم شکر بجا لا گھوڑا ہو یا گدھا سوار ہو ۔وہ اللہ کی نعمت ہے اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا احسان مند رہ
گنج بخش کالقب
حضرت داتا گنج بخش کی جلا لت شان اور مرتبہ کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت سید معین الدین چشتی ؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ جیسے جلیل القدر بزرگوں کے علاوہ حضرت میا ں میر قادری اور محدث کبیر حضرت شاہ محمد غوث قادری لاہوریؒ نے آپ کے مزار مبارک پر معتکف رہ کر فیض پایا اور منازل سلوک و معرفت طے کیے ۔درار شکوہ شہزادے نے اپنی مشہو رتصنیف سفینة الاولیا ءمیں یہ تصریح کی ہے کہ جو شخص چالیس دن تک بلا نا غہ مزار ِ داتا پر حاضری دے ، اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت پوری فرمادیتا ہے ۔
وصال کے بعد اولیائے کرام کے فیوض و برکات کا جاری رہنا کتاب وسنت سے واضح اور ثابت ہے ۔حضرت داتا گنج بخش ؒ کی اسی فیض رسانی خلق سے متا ثر ہو کر علامہ ڈاکٹر محمد اقبا ل مرحوم بارگاہِ گنج بخش میں عرض کرتے ہیں
سید ہجویر مخدوم ِ اُمم
مرقد ِ اُو پیر سنجررا حرم
حضرت داتا گنج بخش ؒ کی اس فیض رسانی نے عوام و خواص کے دل موہ لیے لوگوں نے جو چاہا سو پایا ۔اس فیض سے گرویدہ ہو کر لوگوں نے آپ کو گنج بخش کہنا شروع کر دیا مزید برآں یہ بھی وجہ ہے کہ آپ کی ذات سے ظاہری و باطنی فیض حاصل ہوا ۔آپ سے علم و دانش کے چشمے پھوٹے ۔آپ نے لوگوں کو ان کے مقصد حیات سے روشن کروایا آپ نے زندگی کے راز کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیے ۔لوگوں کو روحانی زندگی سے متعارف کروایا ۔لاکھوں انسانوں نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔آپ کے ۴۳ سالہ قیام لاہور کے دوران تبلیغ اور فروغ اسلام کا فریضہ آپ کے ہاتھوں بامِ عروج پر پہنچ گیا ۔یہی وجہ تھی کہ خاص و عام نے آپ کو گنج بخش کہنا شروع کردیا ۔
گنج بخش کا لفظ جو آپ کے نام سے پہلے لکھا پڑھااور بولا جاتا ہے اس کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے آپ کے مزار پر چلہ کشی کے بعد روانگی کے لیے آپ سے اجازت طلب کی تو ایک دم آپ کی زبان پر یہ شعر آگیا اورا سی وقت سے گنج بخش کا لفظ مقبولِ عام ہوگیا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاںرا پیرکا مل ، کاملا ں را راہ نما
سوانح حیا ت حضرت داتا گنج بخش ؒ از محمد دین فوق میں لکھا ہے کہ جب حضرت کی اپنی تحریر شدہ کتا ب کشف الاسرار دیکھی جاتی ہے تو مندرجہ بالا ذہن سے فوارًمنتقل ہوجاتا ہے کہ کیونکہ وہ کتا ب بتاتی ہے کہ حضرت کی زندگی میں ہی آپ کا نام حضرت داتا گنج بخش مشہور ہوگیا تھا جیسا کہ کشف الااسرار میں لکھا ہے ۔
”اے علی !لوگ تجھے گنج بخش داتا کے لقب سے پکارتے ہیں (حالانکہ ) تیرے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس قسم کے خیا لات کو اپنے دل میں جگہ مت دے یہ سخت تکبر کی بات ہے ۔گنج بخش ہو یا رنج بخش،یہ سب صفات ذات حق کے لیے مخصوص ہیں ۔“
حضرت سیدعلی ہجویریؒ کی تحریر کے اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گنج بخش داتا کا لقب حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے چلہ کش ہونے سے بہت پہلے خود حضرت علی ہجویریؒ کی زندگی میں مشہور ہو چکا تھا مگر خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے شعر کہنے سے یہ شہرت پہلے سے زیادہ دو بالا ہوگئی ۔دوسر ے یہ کہ حضرت علی ہجویری ؒ نے خود اس لقب کو پسند نہیں کیا اور یہ مشورہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ بہتر ہے ۔
”سید ہجویر میں لکھا ہے کہ گنج بخش کا لقب آپ کو سجتا ہے آپ نے پوری زندگی معرفت کا خزانہ ہی تقسیم کیا ہے آپ نے کشف المحجوب جیسا علمی خزانہ اپنے بعد چھوڑا ہے جسے بجا طور پر تصوف کادستور العمل کہا جاسکتا ہے اہل باطن اس سے سب کچھ پالیتے ہیں ۔الغرض علم و عرفان کا خزانہ لٹانے کے معنوں میں گنج بخش کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
ازدواجی زندگی
شادی کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔اس لیے ہر باشرع بزرگ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتبا ع میں نکاح کیا ۔آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے سنت مصطفی کے مطابق شادی کی مگر اللہ تعالیٰ نے زیادہ عرصہ اس میں مشغول نہ رہنے دیا ۔کشف المحجوب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ہجویر ی نے دو نکاح کیے ۔پہلی شادی ابتداءجوانی میں ہوئی مگر وہ عفیفہ جلد ہی وفات پا گئیں ۔پہلی بیوی کے انتقا ل کے بعد تجرد اختیا ر کر لیا ۔یہ سلسلہ تقریبا ً گیا رہ سا ل قائم رہا ۔حتٰی کے دوسرے نکاح کا موقعہ خود بخود فراہم ہو گیا جس کے بارے میں آپ اس طرح فرماتے ہیں ۔:
”میں کہ علی بن عثما ن جلا بی ہوں ۔خداوند کریم نے مجھے گیارہ برس تک نکاح کی آفت سے بچایا ہواتھا مگر تقدیر نے مجھے آخر نکاح میں گرفتار کر دیا ۔اور ارادہ خواہش کے بغیر اس فتنے میں پھنس گیا ۔واقعہ یہ ہو اکہ ایک پر ی صفت کا بن دیکھے عاشق و شیفةہو گیا ۔ایک سال اسی پریشانی اور اضطرب میں مبتلارہا ۔چنانچہ نزدیک تھا کہ میر ا دین و ایمان تباہ ہوجائے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کمال لطف و کرم سے عصمت و عفت کو میرے قلب کے استقبال کے لیے بھیجا اور اپنی رحمت اور اعانت سے مجھے اس عظیم فتنے سے نجات دی ۔“
اس عبارت سے یہ بات اخذ نہیںہوتی کہ آپ کی پہلی شادی کب ہوئی اور کہاں ہوئی مگر دوسری شادی کا ذکر کرتے ہوئے مندرجہ بالا عبارت میں جو یہ بات لکھی ہے کہ گیارہ سال سے نکاح کی آفت سے بچائے ہوا تھا ،مقدر نے آخر اس میں پھنسادیا اور میں عیال کی صحبت میںدل وجان سے بن دیکھے ہی گرفتار ہوگیا ۔“یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ بچپن ہی سے مناکحت کی زنجیروں میںجکڑ دیے گئے تھے اور پہلی بیوی کے انتقال کے بعد گیا رہ سا ل تک دوسرا نکاح نہیں کیا تھا ۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی پہلی شادی بھی والدین کی موجودگی میں ہوئی تھی اور دوسر ی شادی بھی ان کی موجودگی بلکہ یقیناانھی کے اصرار سے ہوئی ہو گی ۔کیونکہ حضرت نے کشف المحجوب اور کشف الاسرار میں عورتوں سے خدا کی پناہ طلب کی ہے ۔اور ان کی ذات کو فتنہ وفساد کی مخزن قراردیا ہے بلکہ آپ نے بھی اپنی دونوں متذکرہ بالا کتا بوں میں حالتِ تجرید ہی کو پسند کیا ہے ۔نکاح ثانی کے بعد آپ کے یہ الفاظ کہ خدا تعالیٰ نے اس آفت سے بچایا ہوا ہے ۔اب مقدر نے اس میں پھر پھنسا دیا ہے ۔آپ کی دلی ناپسندید گی کا روشن عکس ہے مگر والدین کے ادب و احترام کی وجہ سے اعلانیہ انکا ر نہیں کرسکتے تھے ۔
آپ کی دوسر ی بیوی صرف ایک سال زندہ رہیںاور آپ جلد ہی اس بار سے سبکدوش ہوگئے ۔ان دونوں میں سے کسی نہ کسی بیوی کے بطن سے اولاد بھی پیدا ہوئی کیونکہ آپ کی کنیت ”ابو الحسن “سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے یہاں فرزند تولد ہوا جس کا نام آپ نے حسن رکھا تھا مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ بیٹا صغر سنی میں فوت ہوگیا تھا۔
حنفی مسلک
حضرت سیدعلی ہجویری ؒ حنفی مسلک کے پیرو کا ر تھے ۔اسلامی شریعت کے ترجمان مختلف مسالک فقہ ہیں ۔فقہ ان مسالک میں فقہ حنفی کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔بیشتر اولیاءاور صوفیاءکاتعلق حنفی مشرب ہی سے ہے ۔کیونکہ فقہ کا یہ مسلک بڑا مقبول ہے ۔کشف المحجوب کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سید علی ہجویر یؒ مسلک اہل سنت وجماعت سے تعلق رکھتے تھے ۔اس مسلک کے تر جمان حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ہیں اور آپ کو ان کی ذات گرامی سے بڑی عقیدت تھی ۔اسی وجہ سے آپ نے اپنی کتا ب میں متعدد مقامات پر ان کا ذکر بڑے احترا م سے کیا ہے آپ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ اماموں کے امام اہل سنت و الجماعت کے مقتدا ،فقہار کے سرتاج ،علماءکا طرئہ امتیازحضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخراز ؒ ہیں ۔مجاہدات اور عبادات میں آپ بڑے صاحب ِ استقامت تھے اور طریقت کے اصولوں میں بڑی بلند شان کے مالک تھے ۔
حضرت امام اعظم کے بارے میں خواب
پھر آپ نے اپنے ایک خوا ب کا ذکر کیا ہے جس سے حضرت امام ابوحنیفہؒ کا بلند مقام ظاہر ہوتا ہے آپ نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ شام میں مو ¿ذنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے مزار پر سو رہا تھا خواب میںدیکھا کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بزرگ کو بچوں کی طرح شفقت سے اپنی بغل میں لیے باب بنی شیبہ سے اندر تشریف لارہے ہیں ۔میں دوڑا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاﺅں چومے ۔حیران تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں ۔اور یہ کیا صورت ہے ؟آپ نور باطن سے میرے دل کی کیفیت پر مطلع ہوگئے ۔اور فرمایا تیرا امام ہے اور تیرے ہی علاقے کا رہنے والا ہے ۔مجھے اپنے علاقے کے اعزاز پر بڑی خوشی ہوئی اور خواب سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی طبیعت کے اوصاف سے فانی اور احکام شرع کے اعتبار سے باقی اور قائم ہوتے ہیں ۔اسی لیے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھا کر لائے اگر وہ خود چل کر آتے تو باقی الصفة ہوتے اور باقی الصفة کبھی منزل مقصود کوپہنچ جاتے ہیں اور کبھی نہیں مگرآپ کو لانے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔لہٰذ ا وہ خود اپنی صفات سے فانی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ِ بقا کے ساتھ قائم تھے ۔لہذ ا جس طرح سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطا سے بالا تر ہیں اسی طرح ان سے بھی خطا سر زد نہیں ہوسکتی جو آپ کی صفات کے ساتھ قائم ہوں ۔یہ ایک باریک نکتہ ہے ۔
آپ کے اس خواب سے حضرت امام اعظم ؒ کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کی شان اتنی بلند ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کو اس کے حقیقی معنوں میں فروغ دیا اور تبلیغ دین کا صحیح فریضہ ادا کیا ۔اس لیے آپ حنفی مسلک کو دوسرے مسالک پر ترجیح دیتے ہوئے اس کے پیروکا ر تھے ۔